زیر مطالعہ حدیث کے ضمن میں‘میں یہ بات آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں کہ انسان کو غصہ تب آتا ہے جب کسی نہ کسی حمیت پر زد پڑتی ہے.اب یا تو حمیت ذاتی ہے.یعنی آپ نے محسوس کیا کہ میری ذات ‘میری شہرت ‘ میری عزت‘ میرے خاندان‘ میری قوم یا میرے وطن پر حملہ کیا گیا ہے‘تو ظاہر بات ہے ‘آپ کو غصہ آئے گا.دوسری صور ت یہ ہے کہ اللہ کے دین پر حملہ کیا گیا ہے‘ تو یہحمیت دینی ہے‘ اور اس پر غصہ آنا مستثنیٰ ہوجائے گا ان غصوں سے جو حمیت ذاتی‘ حمیت عائلی ‘حمیت قومی یا حمیت وطنی پر زدپڑنے کی وجہ سے آتے ہیں. لہٰذااپنے کسی ذاتی معاملے پر غصہ میں آجانا اور اللہ کے (۱) صحیح الجامع للالبانی‘ح:۸۹۳دین کے معاملے میں غضب ناک ہو جانا‘ان میں بنیادی طور پر فرق پڑ جائے گا. حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی دینی حمیت پر غصہ آیا تھا کہ میری قوم نے اتنے بڑے بڑے معجزے دیکھنے کے باوجود شرک کی روش اختیار کر لی! ان معجزوں کے بارے میں سورئہ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا: وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی تِسۡعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ (آیت ۱۰۱’’اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ کو نوواضح نشانیاں دیں‘‘. شروع میں دو معجزے تھے:(۱) موسیٰ علیہ السلام کے عصا کا سانپ بن جانا (۲) ید ِبیضا. پھر صحرائے سینا میں من و سلویٰ کا نزول ہوااور ایک چٹان سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے. اسی طرح بڑے سے بڑے معجزے آتے چلے گئے ‘جبکہ سب سے بڑا معجزہ سمندر کو پھاڑ کر بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لاؤ لشکر سے نجات دینا تھاان سب معجزوں کو دیکھنے کے باوجود قوم کا یوں شرک میں مبتلاہوجانے پر موسیٰؑ علیہ السلام کا غضب ناک ہو جانا‘ بالکل معقو ل اور قرین قیاس ہے.