اس حدیث کے حوالے سے آخری نکتہ یہ ہے کہ نبی اکرم کے اس اندازِ بیان لَا تَغْضَبْ، لَا تَغْضَبْ، لَا تَغْضَبْ سے ایک بڑی اہم بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ درحقیقت شخصی تشخیص اور شخصی علاج تھا.روحانی معالج کے لیے شخصی تشخیص بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور وہ اسی کے مطابق علاج کرتا ہے. ظاہر بات ہے کہ انبیاء ورسل علیہم السلام مزکی تھے‘ اور وہ لوگوں کا روحانی تزکیہ کرتے تھے. اسی طرح ہمارے ہاں صوفیاء کا ایک طبقہ ہے جنہوں نے اپنے مشائخ سے تزکیہ کرایا ہوتا ہے اور پھروہ دوسروں کا تزکیہ کرتے ہیں. یہ ایک سلسلہ ہے جو چل رہا ہے. اس تزکیہ کے اندر ایسا نہیں ہوتاکہ ایک ہی بات سب کو بتائی جائے‘بلکہ مزاج اور طبائع کے لحاظ سے ہر ایک کا تزکیہ کیا جاتا ہے.یہی رسول اللہ کاانداز تھا.اکثراذکار تو ایسے ہیں جو حضوراکرم  نے سب کو بتائے‘ مثلاً ہر نماز کے بعد اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ پڑھنا وغیرہ. لیکن بعض اذکار ایسے بھی ہیں جو آپ نے کسی فردِواحد کو اُس کی باطنی کیفیت کے مطابق بتلائے.اسی طرح آپ نے بعض لوگوں کو کچھ خاص نصیحتیں فرمائیں.چنانچہ روحانی معالج کے اندر شخصی تشخیص وشخصی علاج کیصلاحیت ضروری ہے اس لیے کہ کہ لوگوں میں مختلف قسم کے باطنی امراض ہوتے ہیں. کسی کے اندر دولت کی محبت زیادہ ہے‘ کسی کے اندرغصہ بہت تیز ہے اور کسی کے اوپر شہوت کا غلبہ بہت زیادہ ہوتا ہے‘ تو اب سب کا علاج ایک طرح نہیں ہوگا‘ بلکہ ہر ایک کاعلاج اسی کے اعتبار سے ہو گا. لہٰذا زیر مطالعہ فرمانِ نبویؐ میں یہ اُس شخص کے لیےشخصی تشخیص وعلاج (personal prescription)ہے. معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کے اندر غضب اور غصہ کا معاملہ ضرورت سے زائد تھا‘ اس لیے رسول اللہ نے تکرار کے ساتھ اسے اِسی سے بچنے کا مشورہ دیا اور بتکرار اسی کی وصیت فرمائی. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المُسلمین والمُسلمات