زیر مطالعہ حدیث کے ابتدا میں رسول اللہ نے فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ کَتَبَ الْاِحْسَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ کہ اللہ تعالیٰ نے ہر معاملے میں خوبصورتی اور اچھا انداز اختیار کرناواجب قراردیا ہے. یہ چیز اسلامی معاشرے میں ایک خاص قسم کی تہذیب سے پیدا ہوتی ہے اور یہ تہذیب ہے: ’’تہذیب نفس‘‘یعنی ہر کام کو کرنے میں بہتر سے بہتر شکل اختیار کرنے کی کوشش کرنا. اسی سے معاشرے کے اندر خوبیاں پروان چڑھتی ہیں اور اسی سے بھلائیوں کی ترقی ہوتی ہے.

آگے رسول اللہ نے احسان اورحسن تہذیب کی چند مثالیں بیان کرتے ہوئے فرمایا: فَاِذَا قَتَلْتُمْ فَاَحْسِنُوا الْقِتْلَۃَ ’’پس اگر تم کسی کو قتل کرو تو عمدگی کے ساتھ قتل کرو‘‘.یہ نہ ہو کہ مارنا آپ نے کہیں تھا‘مگر آپ کے اناڑی پن کی وجہ سے وار کہیں پڑ رہا ہے .یہی وجہ ہے کہ جلاد ایک پیشہ ہے اور یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں ہے.فرض کیجیے کسی شخص کو قصاص میں قتل کیا جانا ہے یا وہ مرتد ہو گیا اور اسے ارتداد کی سزا کے طور پر قتل کیا جانا ہے تو یہ قتل کرنا بھی ایسے ہو کہ ایک ہی وار میں گردن دھڑ سے الگ ہو جائے اور اس کو زیادہ تکلیف نہ ہو.اس ضمن میں مجھے جگر کا شعر یاد آ گیا ؎

میں چوٹ بھی کھاتا جاتا ہوں اور قاتل سے بھی کہتا جاتاہوں
توہین ہے دست و بازو کی وہ وار کہ جو بھرپور نہ ہو!

ایک ہی وار میں گردن اڑادینا‘ یہ ایک پروفیشنل آدمی ہی کر سکتا ہے.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ اگر کسی کو قتل بھی کرنا ہے تو عمدگی کے ساتھ کرو تاکہ مقصد بھی پورا ہو جائے اور اس کو تکلیف بھی کم سے کم ہو‘ اس لیے کہ ان سزاؤں میں مجرم کو تکلیف دینا مقصود نہیں ہوتا. درحقیقت اللہ تعالیٰ نے یہ سزائیں دنیا والوں کے لیے عبرت کے طور پر رکھی ہیں کہ کوئی شخص اگر قاتل ہے تو وہ اس طور سے سرعام سب کے سامنے قتل ہوکہ بہت سے لوگ اُس کو دیکھ کر سبق اور عبرت حاصل کریں اور معاشرے سے ناحق قتل کاخاتمہ ہو جائے.

دوسری مثال آپ نے یہ بیان فرمائی: وَاِذَا ذَبَحْتُمْ فَاَحْسِنُوا الذَّبْحَۃَ ’’اورجب (کسی جانورکو)ذبح کرنے لگوتو بڑی خوبصورتی کے ساتھ ذبح کرو‘‘. آگے اس کی مزید وضاحت کر دی: وَلْـیُحِدَّ اَحَدُکُمْ شَفْرَتَہُ وَلْـیُرِحْ ذَبِیْحَتَہٗ ’’اور تم میں سے ایک شخص (جو ذبح کر رہا ہو) کو چاہیے کہ وہ اپنی چھری کو تیز کرے اوراپنے ذبیحہ کو آرام پہنچائے‘‘. یہ نہ ہو کہ کند چھری آپ کسی جانور کے گلے پر چلا رہے ہوں.ظاہر بات ہے کہ جانور کی بھی نفسیات ہے‘ اس کے بھی احساسات ہیں. آپ اگر اس کے ساتھ دھینگا مشتی کر رہے ہیں اور آپ کی چھری کاٹ ہی نہیں رہی تو یہ اس پر ظلم ہے اور اس سے منع کیاگیا ہے.اسی لیے رسول اللہ نے یہ تعلیم فرمائی کہ جانور کو ذبح کرنے والے کو چاہیے کہ وہ اپنی چھری کو تیز کرے .بکری کا گوشت آپ نے کھانا ہے ‘وہ آپ کے لیے حلال اور جائز ہے‘ لیکن اس بکری کو ذبح کرتے ہوئے یہ دھیان رہے کہ اسے کم سے کم تکلیف ہو.