زیرمطالعہ حدیث دو عظیم المرتبت صحابہؓ سے مروی ہے‘ لہٰذا اس اعتبار سے اس حدیث کی اہمیت بھی زیادہ ہے. حضورﷺ نے فرمایا: اِتَّقِ اللّٰہَ حَیْثُمَا کُنْتَ ’’جہاں کہیں بھی ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘. وَاَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُھَا ’’اوربرائی کے بعد نیکی ضرور کرو تاکہ وہ برائی کو مٹا دے‘‘. یعنی اگر تم سے کسی برائی کا صدور ہو جائے تو فوراً اس کے پیچھے کوئی نیکی کا کام کرو تاکہ وہ نیکی اس برائی کو محو کر دے اور تمہارے نامہ اعمال سے اس کو دھو دے. وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ ’’اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آیاکرو‘‘.یہ وہی تہذیب ہے جس کا میں نے (۱) الجامع الصغیر للسیوطی : ۸۷۴۸ .
(۲) سنن الترمذی‘ ابواب المناقب‘باب مناقب معاذبن جبلص… ماقبل ذکر کیا تھا. یہ اصل میں اسلامی تہذیب و تمدن کے خدوخال کا حسن ہے جو اس قسم کی احادیث پر عمل کرنے سے پیدا ہوتا ہے.
اب اس حدیث کے مندرجات کا ذرا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں.حدیث کے آغاز میں رسول اللہﷺ نے فرمایا: اِتَّقِ اللّٰہَ حَیْثُمَا کُنْتَ کہ جہاں کہیں بھی ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو. اس سے پہلے تقویٰ کے حوالے سے وہ حدیث بھی میں آپ کو سنا چکا ہوں جس میں رسول اللہﷺ نے تین ’’مُنْجِیَات‘‘ (نجات دینے والی باتوں) میں سے آخری شے : خَشْیَۃُ اللّٰہِ فِی السِّرِّ وَالْعَلَانِیَۃ فرمائی‘ یعنی ’’اللہ کے خوف اور تقویٰ کو لازم پکڑو چاہے آپ خلوت میں ہوں یا جلوت میں‘‘. چاہے آپ علی اعلان کوئی کام کر رہے ہیں جسے دنیا دیکھ رہی ہے یا آپ تنہائی میں کوئی کام کر رہے ہیں جہاں سوائے اللہ کے دیکھنے والا کوئی نہیں ہے. ان دونوں صورتوں میں تقویٰ کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے. ظاہر ہے کہ اگر آپ مجمع میں کام کر رہے ہوں گے تو آپ کو یہ بھی خیال آئے گا کہ لوگ دیکھ رہے ہیں ‘لہٰذا میں کام ٹھیک کروں. آپ کی نیت میں ریاکاری نہ بھی ہو تب بھی کسی نہ کسی درجے میں فطری طور پر یہ بات آپ کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے! لیکن آپ تنہائی میں ہیں اور وہاں اگر آپ بہترین اندازاختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ واقعتا تقویٰ اور خشیت ِالٰہی کی جڑیں آپ کی شخصیت کے اندر جمی ہوئی ہیں. اس لیے نبی اکرمﷺ نے فرمایا جہاں کہیں بھی ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اگر کوئی برائی ہو جائے تو فوراً اس کے بعد نیکی کروجو اس کو مٹا دے گی.