میں چاہتا ہوں کہ سورۃ التوبہ میں جو بات آئی ہے‘ اس کے حوالے سے اس کو سمجھ لیں. سورۃ التوبہ میں بیان ہوا ہے کہ غزوۂ تبوک سے واپسی کے بعد حضور نے غزوہ میں پیچھے رہ جانے والوں سے جواب طلبی بھی کی اور بعض صحابہؓ کو سزا بھی دی جو بغیر کسی عذر کے نہیں گئے تھے.منافقین نے تو جھوٹے بہانے بنا لیے اور حضور نے بھی گویا ان کو اہمیت نہیں دی اور آپؐ نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے ‘ یہ نہیں کہا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو! یہ حضور کی مروت تھی‘ شرافت تھی‘ آپؐ کا اخلاقِ حسنہ تھا. لیکن تین اصحاب (کعب بن مالک‘ ہلال بن اُمیہ اور مرارہ بن الربیع رضوان اللہ علیہم اجمعین) ایسے تھے جنہوں نے مان لیا کہ ہمارا کوئی عذر نہیں تھا‘ بس ہمارے نفس نے ہمیں بہکایا اور ہم اس غزوہ میں نہ جاسکے.

ان میں سے ایک صحابی حضرت کعب بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ نے اپنا واقعہ بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے جو کتب احادیث اور تفاسیر میں منقول ہے.انہوں نے کہا: یارسول اللہ ! جس قدر میں خوشحال اور مالدار اس وقت تھا اتنا پہلے کبھی نہیں تھا. یعنی میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرے پاس زادِ راہ نہیں تھایا میرے پاس سواری نہیں تھی. اسی طرح جتنا میں صحت مند اس وقت تھا اتنا میں اس سے پہلے نہیں تھا. اس سب کچھ کے باوجود میرے نفس نے مجھے یہ کہا کہ رسول اللہ تو ابھی روانہ ہو رہے ہیں اور تیس ہزار کا لشکر ساتھ ہے. لشکر تو آہستہ آہستہ چلے گا ‘جبکہ تمہاری اونٹنی بڑی تیز رفتار ہے اور تم ایک دو دن بعد بھی اگر روانہ ہو گے تب بھی تم حضور سے جا ملو گے. ایسا نہیں ہے کہ ان کا ارادہ نہ جانے کا تھا‘بلکہ وہ جانا چاہتے تھے ‘بس نفس کے دھوکے میں آکر انہوں نے ایک آدھ دن آرام کے بعدجانے کا فیصلہ کیا. اگلے دن نفس نے پھر یہی کہا کہ ابھی حضور کو وقت لگے گا‘ لہٰذا تم ایک دودن اور آرام کرلو‘بعد میں تنہا تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے ان کے ساتھ شامل ہو جانا. اگلے روز پھر یہی ہوا اور اس کشمکش میں کئی دن گزرگئے.چند دن کے بعد انہیں احساس ہوا کہ اب تو میں جتنا بھی تیز جائوںحضور تک نہیں پہنچ سکتا. لہٰذاآپؓ گھر بیٹھے رہے اورانہوں نے اپنی اس کوتاہی کو مان لیا.پھر بعد میں انہیں سزا بھی دی گئی.