اہل ایمان کی درجہ بندی میں ’’السابقون الاولون‘‘ کا بلند مقام

سورۃ التوبہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل ایمان کی ایک تقسیم بھی ٭ محترم ڈاکٹر صاحب نے ان تینوں اصحاب کو ملنے والی سزا کا ذکر بیان القرآن ‘ سورۃ التوبہ کی آیت ۱۰۶کے ضمن میں بڑی تفصیل سے کیا ہے.آپ لکھتے ہیں:

’’ان تینوں حضرات کے بارے میں نبی اکرم نے حکم دیا کہ کوئی شخص ان تینوں سے بات نہ کرے اور یوں ان کا مکمل طور پر معاشرتی مقاطعہ 
(social boycott) ہو گیا ‘جو پورے پچاس دن جاری رہا. حضرت کعبؓ فرماتے ہیں اس دوران ایک دن انہوں نے اپنے چچا زاد بھائی اور بچپن کے دوست سے بات کرنا چاہی تو اس نے بھی جواب نہ دیا. جب انہوں نے اس سے کہا کہ اللہ کے بندے تمہیں تو معلوم ہے کہ میں منافق نہیں ہوں تو اس نے جواب میں صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ؐ ہی بہتر جانتے ہیں. چالیس دن بعد حضور کے حکم پر انہوں نے ابھی بیوی کو بھی علیحدہ کر دیا. اسی دوران والی ٔغسان کی طرف سے انہیں ایک خط بھی ملا‘جس میں لکھا تھا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کے ساتھی آپ پر ظلم ڈھا رہے ہیں‘ آپ باعزت آدمی ہیں‘آپ ایسے نہیں ہیں کہ آپ کو ذلیل کیا جائے‘لہٰذا آپ ہمارے پاس آ جائیں ‘ہم آپ کی قدر کریں گے اور اپنے ہاں اعلیٰ مراتب سے نوازیں گے. یہ بھی ایک بہت بڑی آزمائش تھی ‘مگر انہوں نے وہ خط تنور میں جھونک کر شیطان کا یہ وار بھی ناکام بنا دیا. ان کی اس سزا کے پچاسویں دن ان کی معافی اور توبہ کی قبولیت کے بارے میں حکم نازل ہوا (آیت ۱۱۸) اور اس طرح اللہ نے انہیں اس آزمائش اور ابتلا میں سرخروفرمایا. بائیکاٹ کے اختتام پر ہر فرد کی طرف سے ان حضرات کے لیے خلوص و محبت کے جذبات کا جس طرح سے اظہار ہوا اور پھر ان تینوں اصحابؓ نے اپنی آزمائش اور ابتلا کے دوران اخلاص و استقامت کی داستان جس خوبصورتی سے رقم کی‘یہ ایک دینی جماعتی زندگی کی مثالی تصویر ہے.‘‘مذکورہے. سب سے اوپرہیں: السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ یعنی مہاجرین اور انصار میں سے جو سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں. اب انصار کے السابقون الاولون‘مہاجرین کے السابقون الاولون سے کم از کم دس پندرہ برس بعدکے لوگ ہیں ‘اس لیے کہ وہاں ایمان تو پہنچا ہی بہت دیر میں ہے. لیکن یہاں پہلے یا بعدمیں آنے کا اعتبار زمانی لحاظ سے نہیں ہے ‘بلکہ اصل میں یہ ایک کیفیت ہوتی ہے کہ جیسے ہی بات سامنے آئے فوراً مان لینا.اسی کا نام صدیقیت ہے.لہٰذا جس طرح مہاجرین میں صدیق صحابہ تھے اسی طرح سے انصار میں بھی صدیق صحابہ تھے ‘اورحضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اس کی بہت بڑی مثال ہیں. چنانچہ مہاجرین اور انصار السابقون الاولون کے درجے میں برابر ہو جائیں گے.

پھر ان کے ساتھ وہ لوگ بھی شامل ہیں: وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ ’’اور وہ لوگ جنہوں نے ان کی پیروی کی احسان کے ساتھ‘‘.یعنی یہ لوگ فوری طور پر تو ایمان نہیں لائے‘انہیں ایمان لاتے لاتے کچھ وقت تو لگ گیا‘ لیکن ان کا ایمان بھی خالص تھا اوروہ بڑے خلوص اورقلب و ذہن کی ہم آہنگی کے ساتھ ایمان لائے.اس اعتبار سے (۱) السابقون الاولون‘ اور (۲) متبعین باحسان تو سب سے اونچے مقام پرہو گئے اور ان دونوں گروہوں کے لیے ہی اللہ ربّ العزت نے فرمایا: 

رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ ﴿۱۰۰﴾ 
(التوبۃ) 
’’اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے‘اور اس نے ان کے لیے وہ باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے ندیاں بہتی ہوں گی‘ان میں وہ ہمیشہ ہمیش رہیں گے.یہی ہے بہت بڑی کامیابی.‘‘