اعلیٰ ترین مراتب والے اصحاب کے ذکر کے بعد اگلی آیت میں بالکل نچلی سطح کے لوگوں کا تذکرہ ہو رہا ہے اور وہ درجہ ہے منافقین کا. ان کے بارے میں فرمایا: وَ مِمَّنۡ حَوۡلَکُمۡ مِّنَ الۡاَعۡرَابِ مُنٰفِقُوۡنَ ؕۛ ’’اور تمہارے گرد و نواح کے بعض دیہاتی منافق بھی ہیں‘‘منافقین بعض اوقات یہ کرتے تھے کہ حضور سے کہتے کہ ہم سے کوئی صدقہ وصول کر لیں یا ہم سے چندہ لے لیں اور ہمیں اس جہاد پر جانے سے مستثنیٰ کر دیں واضح رہے کہ غزوۂ تبوک سے پہلے کسی غزوہ کے لیے نفیر عام نہیں تھی ‘یعنی یہ نہیں تھا کہ ہر مسلمان لازمی نکلے‘لہٰذا غزوۂ تبوک سے پہلے اگر ان منافقین کی طرف سے کوئی صدقہ یا کوئی نفقہ پیش کیا جاتا تو حضور اکرم اسے قبول کر لیتے تھے ‘لیکن غزوۂ تبوک کے بعد حضور کو ان منافقین کے صدقات قبول کرنے سے روک دیا گیا. فرمایا: قُلۡ اَنۡفِقُوۡا طَوۡعًا اَوۡ کَرۡہًا لَّنۡ یُّتَقَبَّلَ مِنۡکُمۡ ؕ اِنَّکُمۡ کُنۡتُمۡ قَوۡمًا فٰسِقِیۡنَ ﴿۵۳﴾ (اے نبی !) کہہ دیجیے چاہے دلی آمادگی کے ساتھ خرچ کرو یا مجبوری سے تم سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا ‘اس لیے کہ تم نافرمان لوگ ہو‘‘ یعنی تمہارا جو طرزِعمل ہے اس نے ثابت کر دیا ہے اور اب اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی ہے کہ تم یقینا سرکش‘ باغی اور فاسق لوگوں میں سے ہو . اس سے اگلی آیت میں فرمایا: وَ مَا مَنَعَہُمۡ اَنۡ تُقۡبَلَ مِنۡہُمۡ نَفَقٰتُہُمۡ اِلَّاۤ اَنَّہُمۡ کَفَرُوۡا بِاللّٰہِ وَ بِرَسُوۡلِہٖ ’’اور نہیں روکا ہے کسی چیز نے ان کے صدقات و نفقات کو قبول کیے جانے سے ‘ مگر اس لیے کہ حقیقت میں وہ کفر کر چکے ہیں اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ.‘‘

میں بارہا مختلف مواقع پر تفصیل سے یہ بیان کرچکا ہوں کہ منافقین کے بارے میں تدریجاً معاملہ آگے بڑھا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ سورۃ البقرۃ میں لفظ منافق اور نفاق نہیں ہے ‘وہاں صرف مرض کا ذکر ہے. فرمایا: فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا ۚ وَ لَہُمۡ عَذَابٌ اَلِیۡمٌۢ ۬ۙ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ ﴿۱۰﴾ ’’ان کے دلوں میں (نفاق کا) مرض تھا ‘پس اللہ نے ان کا مرض اور زیادہ کر دیا.اب اُن کے جھوٹ بولنے کے سبب دُکھ دینے والا عذاب اُن کا مقدر ہے‘‘.یعنی یہاں یہ بتادیا کہ ان کے دلوں میں ایک روگ اور مرض ہے‘ لیکن واضح نہیں کیا کہ یہ منافقت ہے. سورۂ آلِ عمران میں ایک جگہ لفظ ’’نفاق‘‘آ گیا‘ لیکن سورۃ النساء میں بڑی تفصیل سے بات ہوئی ہے . وہاں یہ بھی فرمادیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا کوئی عمل قابل قبول نہیں ہے‘ اس لیے کہ ان کا طرزِعمل یہ ہے : اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمۡ ۚ وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیۡلًا ﴿۱۴۲﴾۫ۙ ’’منافق (ان چالوں سے اپنے تئیں) اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں اور(یہ منافق اللہ کو کیا دھوکہ دیں گے‘بلکہ) وہ انہی کو دھوکے میں ڈالنے والا ہے .اور جب یہ نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہو کر (صرف) لوگوں کو دکھانے کو اور اللہ کی یاد نہیں کرتے مگر بہت کم‘‘. یعنی ان لوگوں کا معاملہ اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبہ کا دروازہ اگرچہ بالکل بند نہیں کیا گیا لیکن یہ بتا دیا گیا کہ اب معاملہ سخت ہو جائے گا. جبکہ سورۃ التوبہ میں آ کر کہہ دیا گیا کہ اب ان کے لیے توبہ کا دروازہ مکمل طور پر بند ہوچکا ہے اور اب حضرت محمدرسول اللہ  کا استغفار بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں دے گا.فرمایا:اِسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ اَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ (آیت ۸۰’’(اے نبی ! برابر ہے کہ) آپ ان کے لیے استغفار کریں یا ان کے لیے استغفار نہ کریں .اگر آپ ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کریں گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا‘‘. یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ کو منافقین کے حق میں استغفار کرنے سے روک دیا گیا. اس ضمن میں جہاں تک سورۃ التوبہ کا معاملہ ہیتو اس میں گویا مہر ثبت کر دی گئی کہ بظاہر یہ مسلمان بنے ہوئے ہیں لیکن حقیقت کے اعتبار سے ان کا پردہ چاک ہو چکا ہے اور یہ پکے منافق ہیں. لہٰذا اب ان سے کوئی صدقات اور نفقات قبول نہیں ہوں گے اور آخرت میں ان کا انجام بدترین ہوگا: سَنُعَذِّبُہُمۡ مَّرَّتَیۡنِ ثُمَّ یُرَدُّوۡنَ اِلٰی عَذَابٍ عَظِیۡمٍ ﴿۱۰۱﴾ ’’ہم انہیں دوہرا عذا ب دیں گیپھر وہ لوٹا دیے جائیں گے ایک بہت بڑے عذاب کی طرف.‘‘