دیکھئے اہل ایمان کی درجہ بندی کے اعتبار سے السابقون الاولون اور متبعین احسان ٹاپ پر ہیں اور سب سے نیچے منافقین ہیں‘جبکہ ان کے درمیان میں ایک درجہ ہے جنہیں ہم ’’ضعیف الایمان‘‘ کہہ سکتے ہیں. اب ایمان کا یہ ضعف مستقل بھی ہو سکتا ہے اورعارضی بھی. یعنی یہ ہوسکتا ہے کہ کسی وقت کسی مسلمان کے ایمان میں ضعف پیدا ہو جائے ‘ جیسے کہ میں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی غزوۂ تبوک سے پیچھے رہ جانے کی روداد آپ کے سامنے بیان کر دی کہ نفس انہیں بہلاتا رہا کہ کوئی بات نہیں‘ ابھی دو تین دن اپنے نخلستان کی چھاؤں اور گھر کی آسائشوں سے فائدہ اٹھا لو‘ پھر تم تیزی کے ساتھ چلنا اور حضور سے جا ملنا.ان کے اندر منافقت ہرگز نہیں تھی‘ لیکن ان کا ایمان تو کمزور ہوا ہے. وہ تین حضرات جنہوں نے مسجد نبوی میں رسول اللہ کے سامنے آکر اپنا قصور مان لیا اور کہا کہ اگرچہ ہم بھی زبان رکھتے ہیں اور ہم بھی باتیں بنا سکتے ہیں جیسے منافقین جھوٹے بہانے بنا بنا کر جا رہے تھے اور حضور اُن کے جھوٹ کو جانتے ہوئے بھی اپنی شرافت اور مروّت کے تحت انہیں کچھ نہیں کہہ رہے تھے یہ سب ہم بھی کر سکتے ہیں‘لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے‘ اس لیے کہ آج ہم آپ کو اگر کسی طریقے سے راضی کر بھی لیں گے تو کل اللہ کے سامنے کیا جواب دیں گے !تو ایسے ضعیف الایمان اشخاص کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے: وَ اٰخَرُوۡنَ اعۡتَرَفُوۡا بِذُنُوۡبِہِمۡ خَلَطُوۡا عَمَلًا صَالِحًا وَّ اٰخَرَ سَیِّئًا ؕ (آیت ۱۰۲’’اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جواپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اور انہوں نے اچھے اوربرے اعمال کو گڈمڈ کر دیاہے‘‘ یوں سمجھئے کہ ہم میں سے بہترین لوگ بھی درحقیقت ضعیف الایمان والے درجے میں آئیں گے اور بہت ہی کم ہوں گے جو اس سے اوپر کے دو درجات یعنی السابقون الاولون اور متبعین احسان میں شامل ہوں . ہم میں سے اکثر کا شمار اسی درجے میں ہے‘ بایں طور کہ ہمیں اپنی غلطیوں‘ کوتاہیوں اور کمزوریوں کا اعتراف ہے . پھر یہ کہ اگر کوئی برے کام ہم سے صادر ہوتے ہیں تو اچھے اور بھلے کاموں کی بھی اللہ توفیق دیتا ہے. اس اعتبار سے یہ بہت اہم آیت ہے . 

آگے فرمایا: عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّتُوۡبَ عَلَیۡہِمۡ ؕ ’’قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی توبہ کوقبول فرمائے گا‘‘.اس کا دوسراترجمہ یوں ہوگا :’’قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی کمال رحمت کے ساتھ متوجہ ہو جائے گا‘‘ توبہ کے لغوی معنی پلٹنے کے ہیں اور توبہ کا معاملہ دوطرفہ ہوتا ہے. ایک تو بندہ اپنے گناہوں کی وجہ سے توبہ کرتا ہے. گویا اس نے اللہ کی طرف سے پیٹھ پھیر لی تھی اور دوسری طرف رخ کر لیا تھا . اب وہ توبہ کرتا ہے‘ پلٹتا ہے‘ استغفار کرتا ہے ‘ معافی چاہتا ہے‘ اور اپنی خطا کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ کی طرف دوبارہ اپنا رخ کرتا ہے . جب اُس نے اللہ تعالیٰ سے رخ موڑلیا تھا تو اللہ نے بھی اپنی رحمت کا رخ موڑ دیا تھا ‘اب اس کی جانب رحمت ِ الٰہی کا رخ نہیں رہا تھا. جب بندہ پھر اپنی توجہ اللہ کی طرف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی رحمت کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے.لہٰذا توبہ کا معاملہ یک طرفہ نہیں ‘ بلکہ دو طرفہ ہے. چنانچہ ’’تَوَّاب‘‘ کا لفظ اللہ کے لیے بھی آیا ہے اور بند ے کے لیے بھی. قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی یہ صفت بیان کی گئی ہے: اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۳۷﴾ (البقرۃ) ’’یقینا وہ تو بہت توبہ قبول کرنے والا‘بہت رحم فرمانے والاہے‘‘.اسی طرح بندے کے لیے بھی ’’تَوَّاب‘‘ کا لفظ آیا ہے . فرمایا: اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ ﴿۲۲۲﴾ (البقرۃ) ’’یقینا اللہ تعالیٰ بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور بہت زیادہ پاک بازی اختیار کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے‘‘. ایک حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّائٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ (۱’’تمام بنی آدم انتہائی خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں‘‘ دیکھئے غلطیاں تو ہر ایک انسان سے ہوتی ہیں اور انسان کی توتعریف ہی یہ ہے کہ : اَلْاِنْسَانُ مُرَکَّبٌ مِّنَ النِّسْیَانِ وَالْخَطَأِ. یعنی بھول چوک اور خطا یہ دونوں چیزیں انسان کی سرشت کے اندر موجود ہیں‘لیکن بہترین خطاکار وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والے ہیں .