ضعیف الایمان مسلمانوں کے بارے میں رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا : خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً … (التوبۃ:۱۰۳) ’’(اے نبیﷺ !) ان کے اموال میں سے صدقہ قبول کرلیجیے…‘‘ منافقین کے بارے میں تو رسول اللہﷺ کو یہ حکم دیا گیا تھاکہ اب ان کی طرف سے کوئی صدقہ‘ کوئی نفاق‘ کوئی چندہ قبول نہ کیجیے ‘اس لیے کہ اب طے ہو چکا ہے کہ ان کے اوپر اسلام کا صرف لیبل لگا ہوا ہے جبکہ حقیقت کے اعتبار سے یہ لوگ کفر میں داخل ہو چکے ہیں.لیکن یہ جو اہل ایمان اچھے کام بھی کرتے ہیں اور کچھ برے بھی تو آپؐ ان کے اموال میں سے صدقہ قبول کر لیجیے ‘اس لیے کہ یہ جو صدقہ دے رہے ہیں یہ خلوصِ دل کے ساتھ دے رہے ہیں.آگے فرمایا: تُطَہِّرُہُمۡ وَ تُزَکِّیۡہِمۡ بِہَا ’’اس (صدقے) کے ذریعے سے آپ ان کو پاک کر دیں گے اور ان کا تزکیہ بھی کریں گے‘‘. یعنی کسی غلطی اور کوتاہی کی وجہ سے جو بھی کدورت یا کوئی سیاہی آ گئی تھی یا دل پر کوئی داغ لگ گیا تھا تو وہ صاف ہو جائے گا ‘دھل جائے گا. وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ ؕ اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ ؕ ’’اور ان کے لیے دعا بھی کیجیے (یعنی ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے رحمت بھی (۱)سنن الترمذی‘ ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع.وسنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب ذکر التوبۃ. طلب کیجیے اور استغفار بھی کیجیے).یقیناآپؐ کا دعا کرنا ان کے لیے تسکین کا موجب ہو گا‘‘.یعنی جب وہ دیکھیں گے کہ اللہ کے نبی نے ہمارے لیے دعا کی ہے تو یہ ان کے زخموں کے اوپر مرہم رکھنے کے مترادف ہوجائے گا.
زیر مطالعہ حدیث میں بھی فرمایا گیا کہ جب بھی کبھی غلطی ہو جائے ‘ خطا ہو جائے اور کوئی گناہ کا ارتکاب ہو جائے تو فوری طور پر توبہ بھی کرواور کسی نیک کام کا اہتمام بھی کرو اب یہ نیک کام صدقہ ہے‘ خیرات ہے ‘ نوافل ہیں یا کسی اور طرح سے دین کی خدمت کے اندروقت لگانے کا معاملہ ہے اس سے یہ ہو گا کہ جو بھی خرابی ہوئی ہے وہ محو ہو جائے گی. اس بار ے میں رسول اللہﷺ کا بہت امید افزا قول ہے : اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبَ کَمَنْ لاَّ ذَنْبَ لَـہٗ (۱) ’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہیں‘‘ اسلام میں تو توبہ کا دروازہ اتنا کشادہ ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا اگر حقیقی مفہوم میں توبہ کر رہا ہے تو وہ بالکل ایسے ہوجاتا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں‘ بلکہ سورۃ الفرقان میں تو یہاں تک آتا ہے : فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ (آیت ۷۰) کہ جو شخص صحیح معنی میں توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہ اعمال سے گناہوں کی وجہ سے لگنے والے سیاہ دھبے دھو کر ان کی جگہ پرنیکیوں کا اندراج کر دیتا ہے.