تیسری بات اس حدیث میں یہ بیان کی گئی : وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ ’’اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آیا کرو‘‘.حضرت عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپؐ سے چند سوالات دریافت کیے. جب میں نے سوال کیا کہ سب سے افضل ایمان کون سا ہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: خُلُقٌ حَسَنٌ (۲’’(وہ ا یمان سب سے افضل ہے )جس کے ساتھ اخلاقِ حسنہ (یعنی لوگوں کے ساتھ خوبصورتی کے ساتھ پیش آنا)شامل ہو‘‘.حضرت (۱) سنن ابن ماجہ‘ کتاب الزھد‘ باب ذکر التوبۃ.

(۲) مجمع الزوائد للھیثمی:۱/۵۹ و ۱/۶۶
ابوالدردا رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: مَا شَیْئٌ اَثْقَلُ فِیْ مِیْزَانِ الْمُؤْمِنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ مِنْ خُلُقٍ حَسَنٍ (۱’’قیامت کے روز بندۂ مؤمن کے نامہ اعمال میں حسن اخلاق سے زیادہ کوئی عمل بھاری نہیں ہوگا‘‘.اسی لیے رسول اللہ نے فرمایا: تَبَسُّمُکَ فِیْ وَجْہِ اَخِیْکَ لَکَ صَدَقَۃٌ (۲’’تمہارا اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملنا بھی تمہارے لیے صدقہ ہے‘‘.یعنی اگر تم اپنے بھائی سے متبسم چہرے کے ساتھ گفتگو کرتے ہو یا کوئی شخص آیا ہے اور آپ نے تبسم کے ساتھ اس کا استقبال کیا اور اس سے اس کا بھی دل کھل اٹھا تو یہ بھی ایک قسم کا صدقہ ہے. اس کے برعکس اگر آپ کسی کی آمدپر ’’عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا‘‘ بنے بیٹھے رہے اور اسے کوئی خوش آمدید اور اَہْلًا وَسَھْلاً بھی نہ کیا تو اسے بھی افسوس ہو گا کہ میں خواہ مخواہ ادھر آگیا ہوں.اور اگر آپ تبسم کے ساتھ‘ خوشدلی کے ساتھ‘ اچھے انداز میں اسے خوش آمدید کہیں گے‘ اُس کا استقبال کریں گے تو یہ حسن اخلاق میں سے ہے اور اس پرآپ عند اللہ ماجور بھی ہوں گے.

رسول اللہ کے بارے میں تویہاں تک آتا ہے کہ اگرکوئی آپ سے مصافحہ کرتا تھا تو آپ  اس کا ہاتھ اس وقت تک نہیں چھوڑتے تھے جب تک کہ وہ خود نہ چھوڑے‘ اس لیے کہ ہاتھ کھینچ لینا مروت و شرافت کے خلاف ہے. اسی طرح جب کوئی شخص آپؐ کی طر ف متوجہ ہوتا تھا یا آپؐ سے گفتگو کرتا تھاتو آپؐ پوری طرح مڑ کر اس کی بات سنتے تھے. یہ نہیں کہ بس ذرا سا رخ ادھر کر لیا‘ اس لیے کہ اس میں بھی ایک طرح کا تکبر مضمر ہوتا ہے.