اسلامی تعلیمات میں اخلاقِ حسنہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے. اس ضمن میں ایک حدیث حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور اکرم حضرت (۱) سنن الترمذی‘ ابواب البر والصلۃ‘ با ب ما جاء فی حسن الخلق. 

(۲) سنن الترمذی‘ ابواب البر والصلۃ والآداب ‘ باب ما جاء فی صنائع المعروف. 
عائشہؓ کے حجرے میں تھے کہ آپ کو بتایا گیا کہ فلاں شخص آیا ہے. آپؐ نے اس کو اندر بلا لیا ظاہر بات ہے وہ حجرہ تو ایک ہی ہوتا تھا ‘لہٰذا کسی ملاقاتی کے آنے پر حضور کی زوجہ محترمہ پیٹھ کر لیتی تھیں اور چادر اپنے اوپر لے لیتی تھیں حضور نے بڑی خوش اخلاقی کے ساتھ اسے خوش آمدید کہا اور اس سے بڑے اچھے طریقے سے گفتگو کی.جب وہ چلا گیا تو حضرت عائشہؓ نے کہا: یارسول اللہ!آپ تو اس شخص کے بارے میں بہت بری باتیں بھی بتاتے رہے ہیں کہ اس میں یہ خرابی ہے‘ یہ خرابی ہے اور دوسری طرف آپؐ نے اس کا بہت اچھے طریقے سے استقبال کیاہے‘ اس کے ساتھ بہت محبت سے گفتگو کی ہے اور اس کا عمدہ اکرام کیاہے.اس پر آپ نے فرمایا کہ اس کا جو بھی معاملہ ہے‘ اس کے جو بھی کرتوت ہیں ‘ان کی وجہ سے میں خوش اخلاقی کو کیوں ترک کر دوں؟ 

زیر مطالعہ حدیث میں بھی یہی فرمایا گیا: خَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ کہ لوگوں کے ساتھ بہترین انداز میں رہو‘اخلاقِ حسنہ اور شائستگی کا دامن ہمیشہ تھامے رکھو. یہ انداز ایک مسلمان کے لیے ضروری ہےاس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور اس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث ’’حسن ‘‘ ہے اور بعض نسخوں میں آیا ہے کہ ’’حسن صحیح‘‘ ہے‘ یعنی حسن سے بھی اونچا درجہ ہو گیا .تو یہ حدیث بہت مستند احادیث میں سے ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ان چیزوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو ان احادیث میں بیان ہوئی ہیں. آمین یا ربّ العالمین! 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المُسلمین والمُسلمات