سورۃ الفاتحہ میں کل سات آیات ہیں اور عجیب ترتیب ہے کہ تین آیات پر ایک جملہ بنتا ہے.دیکھئے: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾ تین آیات ہیں اوریہ ایک جملہ ایک ہے. پھرآخری تین آیات اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾ بھی ایک جملہ ہیں. ان دونوں جملوں کے وسط میں ایک آیت ہے: اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾. یہ گویا ترازو کی ڈنڈی ہے اور درحقیقت یہ درمیانی آیت ہی سورۃ الفاتحہ کی مرکزی آیت ہے اور اس ایک آیت میں د و مکمل جملے ہیں. اِیَّاکَ نَعۡبُدُ بھی مکمل جملہ ہے اور اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ بھی مکمل جملہ ہے اور درمیان میں ’’واؤ‘‘گویاترازو کی مٹھ کے مترادف ہے.
اس مرکزی آیت میں د و اہم مضامین کا بیان ہے ‘ ایک تو ہے :
اِیَّاکَ نَعۡبُدُ ’’اے اللہ! ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے‘‘. یہ حال اور مستقبل دونوں کو محیط ہے. دوسری اہم بات ہے:
اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ’’اے اللہ!ہم صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگتے رہیں گے ‘‘. گویا جو صلاۃ کا مرکزی نکتہ ہے وہی درحقیقت دین کا مرکزی نکتہ ہے.اربعین نووی کی حدیث
۳ کے مطالعہ کے دوران اس بات پر تفصیل سے گفتگو ہو چکی ہے کہ عبادت کا تصور کیا ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا ہے:
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ (الذّٰریٰت) ’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو بس اپنی عبادت ہی کے لیے پیدا کیا ہے‘‘.اور تمام رسولوں کی دعوت کا مرکزی نکتہ بھی اللہ وحدہٗ لا شریک کی عبادت تھی اور ہر پیغمبر اپنی قوم کو یہی کہتا تھا:
اَنۡ لَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّا اللّٰہَ ؕ (ھود:۲۶) ’’کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو!‘‘ شیخ سعدی نے کہا تھا :
زندگی آمد برائے بندگی زندگی بے بندگی شرمندگی
پھر ہم نے اس میںکنفیوژن پیدا کردیا کہ عبادت کو عبادات کے مترادف قرار دے دیا. نماز ‘روزہ‘ حج اور زکوٰۃ عبادات ہیں‘ لیکن وہ ’’عبادت‘‘ جس کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ‘وہ یہ چیزیں نہیں ہیں. عبادت تو یہ ہے کہ پوری زندگی میں ہمہ تن ‘ ہمہ وقت‘ ہمہ جہت اللہ کی اطاعت کرنا‘ جبکہ نماز ہر وقت تو نہیں پڑھی جاتی اور روزہ ہر روز تو نہیں رکھاجاتا. لہٰذا عبادت سے مراد یہ عبادات نہیں ہو سکتیں. درحقیقت یہ عبادات اس عبادت کے لیے مددگار ہیں .اس کو ایک مثال سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ عبادت چھت کی مانندہے اور یہ چار عبادات چھت کو مدد دینے والے ستون ہیں. ستونوں کی معنویت تب ہی ہوسکتی ہے جب ان کے اوپر ایک عمارت استوار ہو‘ ورنہ بغیر چھت کے چار ستون کھڑے کر دینا چہ معنی دارد! اسی طرح شامیانے کو سہارا دینے کے لیے بانس کھڑے کیے جاتے ہیں اور اگر شامیانہ ہی نہیں ہے تو پھر بانس کس کام کے؟