غیر مرئی حقیقی کے بارے میں جو بات میں نے آپ کے سامنے ابھی بیان کی وہمتفق علیہ ہے کہ فرشتے موجود ہیں‘مگر ان سے مددنہیں مانگی جاسکتی. اس بارے میں ایک بات مختلف فیہ ہے اوروہ یہ کہ غیر مرئی حقیقی میں فرشتوں کے ساتھ ساتھ اولیاء اللہ کی ارواح بھی شامل ہیں. اگر امام الہند شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کا یہ قول نہ ہوتا تو میں کبھی اس کو تسلیم نہ کرتا کہ اللہ تعالیٰ اپنے بڑے محبوب بندوں کے انتقال کے بعدان کی ارواح کو بھی فرشتوں کے درجہ اسفل یعنی سب سے نچلے درجے کے فرشتوں میںشامل کر لیتا ہے اور پھروہ ارواح بھی اللہ کے احکام کی تنفیذ فرشتوں کی طرح کرتی ہیں. اب یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے‘ سب کے نزدیک متفقہ نہیں ہے‘ کیونکہ اس کے لیے ہمیں قرآن مجید سے کوئی دلیل نہیں ملتی. لیکن شاہ ولی اللہ کہہ رہے ہیں تو ہم اسے یکسر نظر انداز بھی نہیں کر سکتے. اس اختلاف کے باوجود اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ان کوبھی پکارا نہیں جائے گا اور ان سے مددبھی طلب نہیں کی جائے گی . وہ بے شک اللہ کی سول سروس کے اندر بھرتی ہو گئے‘ لیکن وہ بااختیار نہیں ہیں ہمارے ہاں بھی سول سروس کے کیڈرز (cadres) ہیں ‘جیسے ریونیو کے محکمے میں آپ پٹواری سے چلیں گے تو گرداور‘ اس سے اوپر نائب تحصیل دار ‘ پھر تحصیل دار اور پھر اس سے اوپر کے عہدے ہیں . اسی طرح فرشتوں کے بھی درجے ہیں: طبقہ اسفل ‘ طبقہ اعلیٰ اگر اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی ارواح کو بھی اپنی سول سروس میں شامل کر دے تو ہمیں کیا اعتراض ہے اور اس کو ماننے سے کوئی شرک لازم نہیں آئے گا.البتہ اگر ہم انہیں پکاریں گے تو شرک لازم آجائے گا. 

یہ بہت نازک سا فرق ہے کہ ہم فرشتوں کو مانتے ہیں‘ مگر انہیں پکارنہیں سکتے‘ ان سے مدد نہیں مانگ سکتے . اسی طرح اولیا ء اللہ کی ارواح کے بارے میں خواہ آپ مانتے بھی ہوں کہ اللہ نے ان کو ملائکہ کی آخری صف میں بھرتی کر لیا ہے اور شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ اور دوسرے اولیاء اللہ ؒ کی ارواح اب بھی کہیں آ سکتی ہیں‘ روحِ محمدی( ) بھی آ سکتی ہے‘ لیکن ہم روحِ محمدی ( )یا اولیاء اللہؒ کی ارواح کو پکاریں گے نہیں. تو یہ ذرا باریک سا فرق ہے. ہمارے ہاں اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یا تو بہت سے لوگ انکار کر دیتے ہیں کہ روح آ ہی نہیں سکتی ‘یا یہ کہ پھر ان سے دعائیں‘ استدعا‘ استغاثہ شروع کر دیتے ہیں. تو یہ دونوں انتہائیں ہو جاتی ہیں.