اس تمہید کے بعد اب ہم حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں. حضرت ابن عباسi فرماتے ہیں: کُنْتُ خَلْفَ النَّبِیِّ  یَوْمًا ’’ایک دن میں نبی اکرم کے پیچھے تھا‘‘. پیچھے ہونے سے کیا مراد ہے؟ گمانِ غالب ہے کہ سواری پر پیچھے بیٹھا تھا جس کو ردیف بھی کہتے ہیں‘یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چلتے ہوئے پیچھے پیچھے چل رہے ہوں.اس کیفیت میں حضور نے ان سے فرمایا: یَا غُلَامُ! اِنِّیْ اُعَلِّمُکَ کَلِمَاتٍ ’’اے لڑکے! میں تمہیں چند کلمات کی تلقین کرتا ہوں(یعنی چند نصیحتیں کرتا ہوں)‘‘. یہ حضور کا طریقہ تربیت اور تعلیم و تزکیہ تھا. وہاں کوئی مدرسے نہیں تھے ‘ وہاں کوئی درس وتدریس کی محفلیں نہیں ہوتی تھیں. محفل تو ہفتہ میں ایک ہی ہوتی تھی اور وہ جمعہ کا اجتماع ہوتا تھا.باقی حضور کی صحبت ہے‘ فجر کی نماز کے بعد آپؐ بیٹھے ہیں تو صحابہ بھی بیٹھ گئے ‘کچھ گفتگو ہو رہی ہے. اسی میں تربیت‘ اسی میں تعلیم اور اسی میں تزکیہ ہوتا تھا. ضربیں مارنے کے لیے علیحدہ قسم کے حلقے نہیں ہوتے تھے. یہ تو سب مانتے ہیں کہ یہ بہت بعد کی ایجاد ہے ‘اس لیے یہ مسنون نہیں ہیں. بہرحال حضور نے فرمایا:اے نوجوان‘ اے لڑکے‘ اے بیٹے!(حضرت ابن عباس ؓ رسول اللہ کے چچا زاد بھائی ہیں اورعمر میں بہت چھوٹے ہیں‘اسی لیے آپؐ نے انہیں یَا غُلَامُ! سے خطاب فرمایا. ) میں تمہیں چند باتیں سکھاتا ہوں‘ توجہ اور غور سے سنو اور انہیں حرزِ جان بنا لو! 

پہلی نصیحت: پہلی بات آپ نے یہ فرمائی: اِحْفَظِ اللّٰہَ یَحْفَظْکَ ’’اللہ کی حفاظت کرو‘ وہ تمہاری حفاظت کرے گا‘‘. اللہ کی حفاظت سے کیا مراد ہے؟ عام طور پر یہ سمجھا گیا ہے کہ اللہ کے احکام کی حفاظت کرو‘بایں طور کہ اللہ کا کوئی حکم ٹوٹنے نہ پائے‘اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ وہ تمہاری حفاظت کرے گا.اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ کو اپنے دل میں محفوظ رکھو ‘یعنی اس کی یاد اور ذکر سے خانہ قلب کو خالی نہ ہونے دو تو اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت کرے گا اور تمہیں یاد رکھے گا.جیسے سورۃ البقرۃ میں ارشادفرمایا: فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ (آیت ۱۵۲’’پس تم مجھے یاد رکھو‘ میں تمہیں یاد رکھوں گا‘‘. حدیث قدسی میں بھی یہ الفاظ آئے ہیں. رسول اللہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہے: 

أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی بِیْ وَأَنَا مَعَہُ حِیْنَ یَذْکُرُنِیْ، فَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِی نَفْسِہٖ ذَکَرْتُہُ فِیْ نَفْسِیْ، وَإِنْ ذَکَرَنِیْ فِیْ مَلَاٍ ذَکَرْتُہُ فِی مَلَاٍ خَیْرٍ مِنْہُمْ (۱
’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں.جب وہ مجھے یاد کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں. اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اوراگر وہ مجھے کسی جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر جماعت کے سامنے اسے یاد کرتا ہوں.‘‘
اللہ تعالیٰ کی محفل ملاء اعلیٰ میں ملائکہ مقربین کی ہے. امیر خسرو ؔنے پتا نہیں کس کیفیت میں یہ شعر کہا ہے: ؎

خدا خود میر محفل بود اندر لا مکاں خسرو
محمدؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم

یعنی رات میں جہاں تھاوہ تو لامکاں کی محفل تھی اور اس محفل میں میر محفل اللہ تعالیٰ تھا اور شمع محفل محمد رسول اللہ تھے . بہرحال اللہ کو تم اپنے دل میں مستحضر رکھو تو اللہ تعالیٰ تمہیں بھی یاد رکھے گا.

ذکر اللہ کے معنی ہی استحضار اللّٰہ فی القلب (اللہ کو دل میں حاضر کرنا)ہیں اور جنہیں ہم ذکر سمجھ بیٹھے ہیں وہ تو ذکر کے ذریعے ہیں. جیسے نماز کے بارے میں فرمایا گیا: وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکۡرِیۡ ﴿۱۴﴾ (طٰہٰ) ’’اورنماز قائم کرو میری یاد کے لیے‘‘.چنانچہ (۱) سنن الترمذی‘ابواب الدعوات‘باب فی حسن الظن باللہ عزوجل. نماز ذکر الٰہی کا ذریعہ ہے . یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ نے عشاء کی سترہ رکعتیں بھی پڑھ لی ہوں اور رب کی یاد آپ کو پھر بھی نہ آئی ہو. اس کا مطلب تویہ ہے کہ آپ ایک مکینیکل انداز میں اُٹھک بیٹھک کر رہے ہیں اور آپ کی زبان سے (ٹیپ ریکارڈر کے انداز میں) نماز کے الفاظ نکل رہے ہیں ‘لیکن آپ کے شعور اور دل کی گہرائی سے ان کا کوئی رابطہ ہے ہی نہیں. وہ ذکر تو نہیں ہوا‘ ہاں نماز فرض تھی تو آپ کا فرض ادا ہو گیا.لہٰذا جنہیں ہم نے ذکر سمجھ لیاہے وہ تو ذکر کے ذرائع ہیں.زبان سے اللہ اللہ‘ سبحان اللہ سبحان اللہ کرنا اس لیے ہے تاکہ اس کے نتیجے میں ذکر حاصل ہو جائے. 

دوسری نصیحت: رسول اللہ نے حضرت ابن عباسؓ کو دوسری نصیحت یہ فرمائی: اِحْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ تُجَاھَکَ ’’اللہ کو یاد رکھو تو اُسے اپنے سامنے موجود پائو گے.‘‘ 

زیر مطالعہ حدیث کے حوالے سے یہ یاد رکھیے کہ اس حدیث کو بہت سے محدثین نے نقل کیاہے.یہ متن جس کا ہم مطالعہ کررہے ہیں یہ امام ترمذی کی نقل کردہ روایت کا ہے اور ان کا قول ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے.اس متن کے علاوہ ایک اور متن بھی امام نوویؒ نے اپنی ’’اربعین‘‘ میں درج کیا ہے اوراُس دوسرے متن میں بیان کی گئی پہلی بات وہی ہے جو یہاں بیان ہوئی ہے‘بس ایک لفظ کا فرق ہے.آپ نے فرمایا: احْفَظِ اللّٰہَ تَجِدْہُ اَمَامَکَ ’’تواللہ (کے احکام) کی حفاظت کر پس تو اسے اپنے سامنے پائے گا‘‘ وہاں تُجَاھَکَ تھا ‘یہاں اَمَامَکَ ہے.مطلب ایک ہی ہے : ’’اپنے سامنے‘‘ یعنی وہ تو دل میں ہے‘ جب چاہو اس سے مخاطب ہو جائو‘جب چاہو اس سے دعا کرواور جب چاہو اُس سے مانگو.جیسے کسی نے کیا خوب کہا ہے: ؎

دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی!

چنانچہ سورۂ قٓ میں فرمایا گیا: وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ﴿۱۶﴾ ’’اورہم تو اس کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں‘‘.یعنی اللہ تو تمہارے دل میں موجود ہے ‘لہٰذاتم اپنے دل میں اسے تلاش کرو. وہ جو بیدل نے کہا ہے : ؎

ستم است گر ہوست کشد کہ بہ سیر سرور وسمن درآ
تو ز غنچہ کم نہ دمیدئہ درِ دل کشا بہ چمن درآ!

یعنی بڑے ستم کی بات ہے کہ تم اپنی خواہش پوری کرنے کی خاطر باغیچے میں جاؤ اور پھولوں کی سیر کرو‘ یہ گلا ب کا پھول ہے‘ یہ موتیا ہے. تم خود کسی غنچے سے کم باصلاحیت نہیں ہو‘ تم تو خود ایک پھول ہو‘ اللہ کا بنایا ہوا اشرف المخلوقات پھول .تم اپنے دل کا دروازہ کھولو اور اس کے اندر جو چمن آباد ہے اس کی سیر کرو! وہ کیا ہے؟ وہ روح ہے. قلب مسکن ہے روح کا!

تیسری نصیحت: رسول اللہ نے تیسری بات یہ فرمائی: اِذَا سَاَلْتَ فَاسْأَلِ اللّٰہَ ’’جب مانگو تو اللہ سے مانگو‘‘.غیر اللہ کے سامنے دست ِسوال مت دراز کرو. دنیوی قواعد و قوانین کے تحت کسی سے مدد مانگنا یا مددچاہنا حرام نہیں ہے‘البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر آپ اس پر اصرار کریں گے تو اس میں شرک کی بدبو پیدا ہو جائے گی . لیکن عام حالات میں باہم سوال کرنے اور مدد کرنے پر دنیا قائم ہے. ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے ساتھ ہی یہ دنیا چل رہی ہے‘ لیکن اونچا مقام یہ ہے کہ سوائے اللہ کے کسی سے سوال مت کیاجائے. یہاں تک کہ جوتے باندھنے کا تسمہ بھی اگر آپ کو درکار ہے تو وہ بھی اللہ سے مانگو. کیا پتا اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں ڈال دے اور وہ آ کر تمہیں تسمہ پیش کر دے.جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ لو لگا کر رکھنے والے ہیں ان کے ساتھ بسا اوقات ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ دل میں ایک بات آئی اور اسی وقت کسی شخص نے آکر وہ بات پوری کر دی. اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے دل اللہ کی دو انگلیوں کے مابین ہیں ‘وہ جب چاہتا ہے پھیر دیتا ہے. کیا پتا اللہ تعالیٰ کسی فرشتے کو انسانی شکل میں بھیج دے جو آپ کی تکلیف کو رفع کر دے یا آپ کی ضرورت کو پورا کردے. لہٰذا اُسی سے مانگو ‘ کسی اور سے مت مانگو. یہی توحید کا لب لباب ہے.

چوتھی نصیحت: اگلی بات آپ نے یہ فرمائی: وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللّٰہِ ’’اور جب مدد مانگو تو صرف اللہ سے مانگو‘‘. استعانت میں وہ سارے الفاظ آجائیں گے جو میں نے ابتدا میں بیان کیے.لہٰذا استمداد ‘ استعانت‘ استدعا‘ استغاثہ‘ یہ سب صرف اور صرف اللہ سے ہو.
اسلام کی جڑ ایمان ہے.یعنی اسلام کا جوخارجی نظامِ عمل ہے‘ چاہے انفرادی اعمال ہوں یا اجتماعی‘ ان سب کی روحِ رواں ایمان ہے‘ اور ایمان کا خلاصہ اور لب لباب ایمان باللہ ہے. ویسے تو ایمان میں ایمان باللہ‘ ایمان بالآخرۃ‘ایمان بالملائکہ‘ایمان بالرسل ‘ ایمان بالکتب اورایمان بالقدر شامل ہے‘ لیکن ایمان کا لب لباب اور روح ’’ایمان باللہ‘‘ہے.یہی وجہ ہے کہ ’’ایمانِ مجمل‘‘ میں سوائے ایمان باللہ کے اور کسی چیز کا ذکر نہیں ہے. 

آمَنْتُ بِاللّٰہِ کَمَا ھُوَ بِاَسْمَائِہٖ وَصِفَاتِہٖ وَقَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ 

یہ’’ ایمانِ مجمل‘‘ ہے‘ یعنی اجمالی طور پر ایمان اس کا نام ہے. ہاں’’ ایمانِ مفصل‘‘ یعنی تفصیلی طور پر ایمان یہ ہے: 

آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَمَلاَئِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَالْقَدْرِ خَیْرِہٖ وَشَرِّہٖ مِنَ اللّٰہِ تَعَالٰی وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ 

الغرض اسلام کا سارا نظامِ عمل‘ چاہے انفرادی اعمال ہوں یا اجتماعی‘ ان سب کی روحِ رواں ایمان ہے اور ایمان کا خلاصہ ہے ایمان باللہ. اور پھر ایمان باللہ کا اصل حاصل وہ ہے جو زیر مطالعہ حدیث میں آرہا ہے. یعنی ایمان باللہ کے دو تقاضے ہیں: (i) عبادت صرف اللہ کی‘اور (ii)استعانت صرف اسی سے . 

پانچویں نصیحت: زیر مطالعہ حدیث کے دوسرے متن میں ان چار باتوں کے علاوہ ایک اور اہم بات کا تذکرہ ہے. رسول اللہ نے فرمایا: تَعَرَّفْ اِلَی اللّٰہِ فِی الرَّخَائِ یَعْرِفْکَ فِی الشِّدَّۃِ ’’ کشادگی کے وقت میں تم اللہ کو یاد رکھو تو وہ تنگی کے وقت تمہیں یاد رکھے گا‘‘.یعنی تمہاری کسمپرسی کی حالت میں تمہاری مددفرمائے گا. ویسے تو ہرحالت میں اللہ کو یاد رکھنا چاہیے‘ لیکن رسول اللہ نے خصوصی طور پر کشادگی اور خوشحالی کے اوقات میں اللہ کو یادکرنے کی تلقین فرمائی. اس بارے میں بہادر شاہ ظفر کے اشعار میں سے بہت زبردست شعر ہے : ؎

ظفرؔ آدمی اُس کو نہ جانیے گا‘ ہو وہ کتنا ہی صاحب فہم و ذکا
جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہی‘ جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا!

ل لہٰذا کشادگی کی حالت میں اللہ کی طرف رجوع کیے رکھنا چاہیے. اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جب تمہیں کوئی تکلیف ہو گی تو وہ تکلیف کو تم پر آسان کر دے گا.اگر کوئی تکلیف تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے تو وہ آکررہے گی‘لیکن اللہ تعالیٰ اس کی شدت کو کم کر دے گا. ایک ہی چیز ہے جس کو ایک انسان بہت شدت کے ساتھ محسوس کر رہا ہے اور دوسرا اس تکلیف کو اتنی شدت سے محسوس نہیں کر رہا .اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دوسرے شخص کے لیے اس تکلیف کی شدت میں کمی کر دی ہے.