زیر مطالعہ حدیث کے آخر میں رسول اللہﷺ نے تین اہم حقیقتیں بیان فرمائیں.
پہلی حقیقت آپﷺ نے یہ بیان فرمائی: وَاعْلَمْ اَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ ’’اور جان لو! اللہ کی مدد صبر کے ساتھ آتی ہے‘‘.جوبھی اللہ وحدہٗ لاشریک کی طرف سے آئے اسے اس طور سے جھیلو کہ زبان پر کوئی بھی کلمہ ٔشکوہ و شکایت نہ آئے. مولانا محمد علی جوہر ایک مرتبہ جیل میں گئے تو اُن کی ایک بیٹی بیمار ہوئی اور فوت ہو گئی. اس کے بعد دوسری مرتبہ جیل میں گئے تو دوسری بیٹی کو بھی وہی بیماری لگ گئی. جیل میں اطلاع ملی تو اشعار کی شکل میں خط لکھا. اس کا آخری شعر یہ ہے : ؎
تیری صحت ہمیں منظور ہے لیکن
اُس کو نہیں منظور تو پھر ہم کو بھی نہیں منظور
یعنی اے بیٹی! ہم تو چاہتے ہیں کہ تجھے شفا ہو جائے‘ لیکن اگر اللہ تعالیٰ کویہ منظور نہیں تو ہمیں بھی منظور نہیں.
؏ ’’سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے!‘‘
دوسری حقیقت رسول اللہﷺ نے یہ بیان فرمائی: وَاَنَّ الْفَرَجَ مَعَ الْـکَرْبِ ’’اور تکالیف و مصائب کے بعد کشادگی او ر فراخی آتی ہے‘‘.فرج کے معنی ہیں: کسی چیز کا کھل جانا‘کشادگی ہوجانا. یہ کشادگی ‘کرب اور تکلیف کے ساتھ وابستہ ہے اور یہی اللہ نے دنیا کا قانون بنایا ہے . آپ اندازہ کیجیے کہ بچے کی ولادت میں ماں کو کتنی تکلیف اٹھانی پڑتی ہے‘ لیکن جیسے ہی بچے کو لا کر ماں کے برابر لٹایا جاتا ہے تو ماں کی ساری تکلیف ختم ہو جاتی ہے اوراُسے ایک عظیم راحت میسر آجاتی ہے.
تیسری حقیقت آپﷺ نے یہ بیان فرمائی: وَاَنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ’’اور مشکل کے بعد آسانی ہو تی ہے‘‘.اسی لیے میں نے سورۃ الانشراح کی دو آیات بھی پڑھی تھیں: فَاِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ۙ﴿۵﴾اِنَّ مَعَ الۡعُسۡرِ یُسۡرًا ؕ﴿۶﴾ ’’(سن لو!) مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے (اور) بے شک مشکل کے ساتھ آسانی بھی ہے‘‘.اس دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ایسا نظام بنایا ہے کہ سختیاں جھیلنی ہی پڑتی ہیں . اسی لیے فرمایا گیا: لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾ (البلد) ’’ہم نے انسان کو مشقت کے اندر پیدا کیاہے‘‘. لہٰذا مشقت تو کرنی پڑے گی‘ اس سے کسی کو مفر نہیں ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ کسی کی جسمانی مشقت زیادہ ہے اور کسی کی ذہنی مشقت زیادہ ہے.
آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس حدیث کے مندرجات پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین یا ربّ العالمین!
اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المُسلمین والمُسلمات