اس ضمن میں میں ایک اور حقیقت واضح کرنا چاہتا ہوں. دیکھئے‘شراب کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ یہ انسانی دماغ کی تمام سطحوں (levels) کو رفتہ رفتہ ناک آئوٹ کرتی ہے‘ ایک دم سارے دماغ کو متاثر نہیں کرتی. مثلاً آپ نے تھوڑی سی شراب پی لی ہے تو خوف اور جھجک (حیا) دونوں جاتے رہیں گے. اس سے انسان میں جرأت و بہادری (boldness) پیدا ہوتی ہے. چنانچہ شراب پی کرایک مقرر بڑی عمدہ تقریر کرے گا‘ ورنہ مقرر کو احساس یا خدشہ ہوتا ہے کہ میری تقریر کا پتانہیں لوگ کیا اثر لے رہے ہوں گے‘ دل میں اس کا کوئی مذاق اڑا رہا ہوگا ‘وغیرہ. یہ خدشات و احساسات ایک مقرر کو قدم قدم پر روکتے ہیں‘لیکن جب جھجک ختم ہوگئی تو اب اس کے ذہن سے یہ سارے خدشات ختم ہوجائیں گے اور وہ بہت عمدہ تقریر کرے گا.اسی طرح اگر کوئی بہت بڑا وکیل ہے تو شراب پی کر جو وہ مقدمے کی پیروی کرے گا وہ بغیر شراب کے نہیں کر سکتا. اسی طور سے لڑائی کا معاملہ ہے. لیکن یہ سب اُس وقت ہے جب شراب کی مقدارکم ہو.اور اگر شراب کی مقدار زیادہ ہو جائے گی تو پھروہ نچلی سطحوں کو بھی متاثر کرے گی اور ڈپریشن پیدا کرے گی اورپھر یہ ڈپریشن دماغ کے ساری سطحوں کو نقصان پہنچاتا چلا جائے گا. البتہ شراب کا پہلا کام خوف اور حیا کو ختم کرنا ہے . اس سے مقرر اچھی تقریر کرے گا اور شاعر اچھے اشعار کہے گا . یہی وجہ ہے کہ سارے کے سارے بڑے شاعر‘ غالب ہو یا کوئی اور‘ اس لال پری سے جی بہلاتے تھے. اقبال بھی ابتدائی دور میں شراب پیتے تھے. جگر نے تو خود کہا ہے : ؎
سب کو مارا جگر کے شعروں نے
اور جگر کو شراب نے مارا
اس لیے کہ شراب توگویا ان کی گھٹی میں تھی‘ لیکن پھر ایک وقت آیا کہ جگر موت سے کافی پہلے تائب ہوئے اور توبہ کرنے کے بعد پھر جو شاعری انہوں نے کی ہے وہ بڑی نفیس اور بہت روحانی پہلو لیے ہوئے تھی. لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کی جو غزلیں مشہور ہیں وہ تو اُسی شراب نوشی کے دور کی ہیں.الغرض‘خوف اور حیا کے ختم ہونے سے مقرر اچھی تقریر کرے گا ‘ وکیل اچھے دلائل دے گااورشاعر اچھی شاعری کرے گا. لیکن رفتہ رفتہ شراب کے زیر اثر انسان بالکل ہی نڈر اور بے حیا ہو جاتا ہے.
اس اعتبار سے حیا (shyness) بہت اہم شے ہے‘اسی لیے حضورﷺ نے فرمایاکہ حیا ایمان کا حصہ ہے اور اس کی مزید تشریح میں ‘میں نے بتایا کہ درحقیقت یہ حیات کا جزوِ لازم ہے ‘بایں طور کہ انسان اپنی حیات کو بچانے کے لیے خوف اور حیا کے میکنزم کا استعمال کرتا ہے.