یہ خالق ِکائنات کی حکمت تخلیق ہے کہ اُس کی طرف سے حیا کا مادہ مرد کی نسبت عورت میں زیادہ رکھا گیا ہے. مرد اپنی جسمانی ساخت‘ اپنی صلاحیتوں اور functions جو اسے دیے گئے ہیں‘ ان کی ر و سے فعال اور متحرک (active) ہوتا ہے‘ اقدام کرتا ہے ‘ جبکہ عورت گریز کرتی ہے. عورت کے نسوانی حسن کا یہ خاصہ ہے کہ وہ گریز کرے‘ اور اگر عورت میں بھی اقدام آ جائے تو پھر اس کی وہ نسوانیت ختم ہو گئی اور وہ بھی مرد ہو گئی.اس لیے کہ عورت کی خلقت میں شرم و حیا اور گریز کا عنصر ہے .کوئی بھی معاملہ ہو‘ چاہے وہ عام طو رپر جس کو ہم عشق مجازی کہتے ہیں‘ اس میں بھی اقدام مرد کی طرف سے ہوتا ہے.مرد طالب ہوتا ہے اور عورت مطلوب ہوتی ہے. تویہ مادہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے اندر زیادہ رکھا ہے اور یہ عورت کے نسوانی حسن کا سب سے بڑا زیور اورسب سے بڑا حصہ ہے.
سورۃ القصص میں اس کا بڑا خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام مصر سے چل کر مدین تک پہنچے ہیں اوراس دوران حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پورا صحرائے سینا عبورکیا ہے. کوئی سواری کیا‘ کوئی شے پاس تھی ہی نہیں‘ اور یہ سانپوں سے بھرا ہوا صحرا تھا. دیکھئے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پرورش فرعون کے محل میں کروائی تھی.وہ اس طرح کہ فرعون بے اولاد تھا‘اورجب دریائے نیل میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وہ صندوقچہ برآمد ہوا جس میں ان کی والدہ نے اللہ کے حکم کے تحت انہیں ڈال کر اسے نیل کے اندر بہا دیا تھاتوفرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے لگا تھا .اس لیے کہ وہ پہچان گیا تھا کہ یہ اسرائیلی ہے اور وہاں پر ہر اسرائیلی بچے کو مار دینے کا قانون رائج تھا.اس پر اُس کی بیوی آڑے آ گئی. دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایسی موہنی صورت دی تھی کہ جو دیکھتا تھا وہ آپ پر فریفتہ ہو جاتا تھا. اس بارے میں سورۂ طٰہ میں بڑے پیارے الفاظ آئے ہیں: وَ اَلۡقَیۡتُ عَلَیۡکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیۡ (آیت ۳۹) ’’(اے موسیٰ ؑ) ہم نے آپ کے اوپر اپنی محبت کا ایک پرتو ڈال دیا تھا‘‘. لہٰذا آپ کی موہنی صورت دیکھ کر اس کی اہلیہ حضرت آسیہ سلامٌ علیہا جوبنی اسرائیل میں سے تھیں‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر دل و جان سے فریفتہ ہو گئیں اور فرعون کو ان کے قتل کے ارادے سے بازرکھا اللہ تعالیٰ نے سورۃ التحریم میں اہل ایمان عورتوں کے لیے حضرت آسیہ کی مثال دی ہے. فرمایا:
وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾
’’اور مؤمنوں کے لیے (ایک) مثال (تو) فرعون کی بیوی کی بیان فرمائی کہ اس نے اللہ سے التجا کی کہ اے میرے پروردگار! میر ے لیے بہشت میں اپنے پاس ایک گھر بنا اور مجھے فرعون اور اس کے اعمال (زشت مآل) سے نجات بخش اور ظالم لوگوں کے ہاتھ سے مجھ کو مخلصی عطا فرما.‘‘
چنانچہ حضرت آسیہ نے کہا : قُرَّتُ عَیۡنٍ لِّیۡ وَ لَکَ ؕ لَا تَقۡتُلُوۡہُ ٭ۖ عَسٰۤی اَنۡ یَّنۡفَعَنَاۤ اَوۡ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا (القصص:۹) ’’یہ میری اور تمہاری آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا‘ اس کو قتل نہ کرنا‘ شاید یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا ہی بنا لیں‘‘. فرعون اور آسیہ کے مابین بڑی موافقت اور اُلفت تھی‘چنانچہ فرعون نے ان کی بات مان کر یہ بچہ انہیں گود لینے کی اجازت دے دی. اس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام وہاں محل میں پلے‘ بڑھے.اس کے بعد فرعون کے ہاں بھی ایک لڑکا پیدا ہو گیا‘اس طرح اب یہ گویا دو بھائی ہو گئے اور دونوں نے بھائیوں کی طرح پرورش پائی .جب فرعون بڑھاپے کو پہنچا تو اُس نے تخت چھوڑ دیا اور اپنے سگے بیٹے کو اس کا وارث بنا دیا. اس کے بعد کیا ہوا؟ اس حوالے سے قرآن مجید اور تورات کا بیان ذرا مختلف ہے.
قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک مخبر نے یہ خبر دی کہ اے موسیٰ! بادشاہ کے دربارمیں تمہارے قتل کے مشورے ہو رہے ہیں‘لہٰذا یہاں سے نکل بھاگو! قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنَّ الۡمَلَاَ یَاۡتَمِرُوۡنَ بِکَ لِیَقۡتُلُوۡکَ فَاخۡرُجۡ اِنِّیۡ لَکَ مِنَ النّٰصِحِیۡنَ ﴿۲۰﴾ (القصص) ’’اُس نے کہا:اے موسیٰ!(شہر کے) سردار تمہارے بارے میں صلاح مشورہ کر رہے ہیں کہ تمہیں مار ڈالیں ‘سوتم یہاں سے نکل جاؤ‘میں تمہارا خیر خواہ ہوں‘‘. اس مخبری پر حضرت موسیٰ علیہ السلام فوراً ہی مصر کو چھوڑ کر صحرائے سینا کی طرف چلے گئے اور پورا صحرائے سینا عبور کیا. اس ضمن میں تورات کا بیان ذرا مختلف ہے . یورپ میں ’’ Ten Commandments‘‘ کے نام سے جو فلم بنی ہے وہ تورات کے بیان پر ہے‘ اس لیے کہ وہ تو تورات ہی کومانتے ہیں. اس میں یہ ہے کہ اسی چھوٹے بھائی (فرعون) نے اپنی رتھ (chariot) پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو سوار کرایا اور صحراکے کنارے لاکرچھوڑ دیا ‘پھر بڑی نفرت کے ساتھ کہا : جاؤ‘ اب نبوت انسانوں پر نہیں صحرا کے اندرمو جود سانپوں پر کرو!
بہرحال حضرت موسیٰ علیہ السلام سارے صحرا کو عبور کر کے تھکے ماندے‘ بھوکے پیاسے مدین پہنچے اور وہاں ایک پانی کے کنویں کے پاس جا کر پڑاؤ ڈالا. وہاں انہوں نے دیکھا کہ دو لڑکیاں کنویں کے ایک طرف کھڑی ہیں اور اپنے ریوڑ کو پانی پینے سے روک رہی ہیں. بکریاں پانی کی طرف دوڑتی ہیں اور وہ انہیں روکتی ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ تم اپنے ریوڑ کو پانی کیوں نہیں پلاتیں؟ انہوں نے کہا کہ ہمار ے والد بوڑھے ہیں اور یہ چرواہے بڑے سخت دل ہیں.لہٰذاجب تک یہ اپنے جانوروں کو پانی پلا کر نہ چلے جائیں ہم اپنے ریوڑ کو پانی نہیں پلا سکتیں. حضرت موسیٰ علیہ السلام جلالی مزاج کے آدمی تھے‘ لہٰذا وہ کنویں کے پاس گئے اور چرواہوں اور ان کے جانوروں کو اِدھر اُدھر ہٹا کر ان لڑکیوں کے ریوڑ کو پانی پلایا اور وہ اپنا ریوڑ لے کر چلی گئیں.
اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور انہوں نے اس وقت یہ دعا مانگی: رَبِّ اِنِّیۡ لِمَاۤ اَنۡزَلۡتَ اِلَیَّ مِنۡ خَیۡرٍ فَقِیۡرٌ ﴿۲۴﴾ ’’اے میرے پروردگار! میں تو تیری ہر اُس خیر اور خیرات کا مستحق ہوں جو تو ُمیری جھولی میں ڈال دے‘‘.یہ فقر کی انتہا ہوتی ہے. ایک فقیر کہتا ہے کہ میں نے ایک روپیہ نہیں لینا‘ پانچ روپے لینے ہیں .یعنی وہ نخرہ کرتا ہے ‘جبکہ اس کے مقابلے میں ایک فقیر وہ ہے جو کہتا ہے کہ ایک دھیلابھی اگر آپ میری جھولی میں ڈال دو تو میں اس کا بھی مستحق ہوں‘ اس لیے کہ میرے پاس تو کچھ ہے ہی نہیں. اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی کہ اے رب! تو جو بھی خیر میری جھولی میں ڈال دے میں اس کا محتاج ہوں‘اس لیے کہ اس اجنبی جگہ پر میرا کوئی جاننے پہچاننے والا نہیں ہے‘میرے پاس کوئی ذریعہ کوئی وسیلہ نہیں اور میں ہر شے کا فقیر ہوں.
دوسری طرف اُن لڑکیوں نے گھر جا کر اپنے والد کو سارا واقعہ بتایا. اب ان میں سے ایک لڑکی اپنے والد کا پیغام لے کر جب آئی تو اس کی چال ڈھال کے لیے قرآن میں جو الفاظ آئے ہیں‘ان کے لیے میں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کایہ سارا واقعہ آپ کو سنایا ہے.قرآن مجید میں اس کے لیے الفاظ آئے ہیں: فَجَآءَتۡہُ اِحۡدٰىہُمَا تَمۡشِیۡ عَلَی اسۡتِحۡیَآءٍ ۫ ’’پس آئی ان دونوں میں سے ایک لڑکی حیا کے ساتھ چلتی ہوئی‘‘. لہٰذا معلوم ہوا کہ عورت کے چلنے میں بھی حیا ہے.