آج کل مغرب کے اثر کے تحت یہ سوچ عام ہو گئی ہے کہ بچوں پر کوئی روک ٹوک نہ لگائو ‘اس لیے کہ یہ بات ان کی نشوونما (development) میں رکاوٹ بنتی ہے.یہ سوچ سراسر حماقت ہے اور یہ حضوراکرم کی تعلیم کے برعکس ہے. ہمیں تو یہ تعلیم ملی ہے کہ اپنی چھڑی کو کبھی اٹھا کر نہ رکھ دینا‘ بلکہ اولاد کو سیدھا رکھنے کے لیے اس کو استعمال کرنا ہے.اولاد کو محبت بھی بھرپور دو‘لیکن ساتھ ہی ان پر کڑی نظر رکھو. جیسے ہمارے ہاں ایک کہاوت ہے کہ ’’کھلائو تو چوری چور کے اور دیکھو گھور کے‘‘. بچوں کے اوپر جب تک بڑوں کا رعب نہ ہو‘بڑوں کا خوف نہ ہو‘ بڑوں کی حیا نہ ہو کہ میرے اس کام پر والد کیا کہہ دیں گے تو ہمارے نزدیک ان کی صحیح انسانی نشوونما (human development) نہیں ہوتی. وہ بچے جنہیں آپ جری ‘ بے شرم‘ بے حیااور بے ادب بنا دیتے ہیں وہ پھرآپ کے سینے پر مونگ دلتے ہیں‘ آپ کے بڑھاپے کے اندر سوہانِ روح بنتے ہیں. ان کے اندر کہاں سے وہ آداب آ جائیں گے اور کہاں سے وہ تہذیب آ جائے گی جو بچپن میں اگر انہیں نہ سکھائی گئی ہو؟ اسی طرح نماز کے بارے میں حکم ہے کہ بچے کو سات سال کی عمر سے نماز کی تلقین شروع کر دو اور دس برس کے بعد بھی اگر بچہ نماز نہیں پڑھتا تو اس کو مارو. اس ضمن میں رسول اللہ  کا فرمان ملاحظہ ہو: 

مُرُوْا اَوْلَادَکُمْ بِالصَّلَاۃِ وَہُمْ اَبْنَائُ سَبْعِ سِنِیْنَ وَاضْرِبُوہُمْ عَلَیْہَا وَہُمْ اَبْنَائُ عَشْرٍ وَفَرِّقُوْا بَیْنَہُمْ فِی الْمَضَاجِعِ (۱
’’اپنی اولاد کو نماز پڑھنے کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہو جائیں ‘اور جب دس برس کے ہوجائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو. اور ان کے بستر بھی الگ کردو.‘‘

لہٰذا جدید چلڈرن سائیکالوجی کی بڑی حماقتوںمیں سے ایک حماقت یہ ہے کہ بچوں کو روک ٹوک کرنے سے ان کے اندر جو آزاد شخصیت کے پروان چڑھنے کا امکان ہوتا ہے‘ وہ ان میں کم ہو جاتی ہے تو انہیں روکو ٹوکو نہیں‘وہ جو چاہے کریں.ایسی سوچ سراسرحماقت اور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے.

بہرحال زیر مطالعہ حدیث انتہائی اہمیت کے حامل ہے کہ حضور نے فرمایا: تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات کے اندر یہ بات موجود تھی کہ جب تم نے حیا کا پردہ اٹھا دیا تو جو چاہو کرو. اس لیے کہ یہی تو بیریئر تھا‘ یہی تو روک ٹوک کی بات تھی. فارسی میں اس کا بہترین ترجمہ ہے :’’بے حیا باش وہر چہ خواہی کن!‘‘ یعنی ایک دفعہ ذرا حیا کا پردہ اٹھا دو تو جو چاہوکرتے پھرو!