ایمان اور اس پر استقامت کے کچھ ثمرات ہیں ‘ ان ثمرات میں سے کچھ داخلی ہیں اور کچھ خارجی. ایمان ایک حقیقت ہے جو باطن اور قلب میں ہوتی ہے. اس کا ظہور ایسے ہوتا ہے جیسے ایک پودے میں پھول لگتے ہیں. ایمان ایسا پودا ہے جس کے کچھ پھول تو ظاہر میں ہوتے ہیں ‘یعنی خارج میں انسان کی شخصیت کے اندر‘ اور اس کے کچھ پھول وہ ہیں جو انسان کی شخصیت کے اندر لہلہاتے ہیں. یہ اندر کے پھول کون سے ہیں؟ ان میں سے اولین اللہ تعالیٰ کی محبت ہے. اگر اللہ تعالیٰ ہر شے سے بڑھ کر محبوب نہیں ہو گیا تو پھر ایمان پر استقامت نہیں ہے. اسی لیے فرمایا گیا : وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕ (البقرۃ:۱۶۵’’اور جو ایمان والے ہیں وہ تو اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں‘‘.اسی محبت ِخداوندی کے تابع اللہ کے رسول  کی محبت اور جہاد فی سبیل اللہ کی محبت ہے. سورۃ التوبہ کی آیت ۲۴ میں یہ ترتیب آئی ہے: 

قُلۡ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ وَ اِخۡوَانُکُمۡ وَ اَزۡوَاجُکُمۡ وَ عَشِیۡرَتُکُمۡ وَ اَمۡوَالُۨ اقۡتَرَفۡتُمُوۡہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخۡشَوۡنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرۡضَوۡنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللّٰہُ بِاَمۡرِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾ 

’’(اے نبی !ان سے) کہہ دیجیے‘ اگر تمہیں اپنے باپ‘ اپنے بیٹے‘ اپنے بھائی‘اپنی بیویاں(یاعورتوں کے لیے شوہر)‘اور تمہارے اپنے عزیزورشتہ دار‘ اور وہ مال جو تم نے بڑی محنت سے جمع کیے ہیں‘ اور وہ کاروبار(جنہیں بڑی مشکل سے تم نے جمایا ہے اور)جن کے کساد کا تمہیں اندیشہ رہتا ہے‘ اور وہ کوٹھیاں (جو تم نے بڑے شوق سے تعمیر کی ہیں اور) وہ تمہیں بڑی محبوب ہیں‘ اگر یہ چیزیں تمہیں زیادہ محبوب ہیں اللہ سے‘ اس کے رسول سے اور اللہ کی راہ میں جہاد سے تو انتظارکرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ سنا دے.اور اللہ ایسے فاسقوں ‘ناہنجاروں کو ہدایت نہیں دیتا.‘‘

الغرض ایمان کا صرف زبانی دعویٰ کافی نہیں ہے‘ بلکہ لاَ مَعْبُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ ، لَا مَقْصُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ ، لاَ مَطْلُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ ، لَا مَحْبُوْبَ اِلاَّ اللّٰہُ کی کیفیت اگر حقیقی معنوں میںنہیں ہے تو پھرایمان بھی نہیں ہے!