استقامت کا تیسرا داخلی پہلو ہے اللہ پر توکل کرنا.محنت کرو ‘ بھاگو‘ دوڑو‘ کمائو‘ جو بھی کرنا ہے کرو‘ مگر کبھی اپنی صلاحیت اور مادی وسائل پر توکل نہ کرنا.یہ تورات کی تعلیم کابھی مرکزی نکتہ تھا‘جوسورۂ بنی اسرائیل کی دوسری آیت میں بیان ہوا ہے کہ میرے سواکسی پر توکل نہ کرنا. چاہے سارے اسباب و وسائل آپ کو مہیا ہوں‘ لیکن کبھی یہ نہ کہنا کہ یہ کام میں کل ضرور کر دوں گا. انگریزی کا ایک محاورہ ہے: There is many a slip between the cup and the lip چاہے ہاتھ میں پیالہ ہے اور پیالے اور آپ کے ہونٹوں کے درمیان بہت کم فاصلہ ہے ‘ لیکن اگراللہ کا اذن نہ ہو تو آپ وہ پیالہ منہ کو نہیں لگا سکتے. چنانچہ اللہ پر توکل ضروری ہے. البتہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ محنت نہ کرو. محنت بھرپور کرو! محنت نہیں کرو گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تم خود اللہ کی مشیت کو توڑ رہے ہو .لہٰذا محنت ضرورکرو ‘مگر یہ یقین بھی ہو کہ ہو گا وہی جو اللہ چاہے گا.

سورۂ بنی اسرائیل کی دوسری آیت کے الفاظ ہیں: وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ’’اورہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے رہنما مقررکیا تھا‘‘ یہاں یہ نکتہ نوٹ کیجیے کہ تورات ’’ھُدًی لِلنَّاسِ‘‘ نہیں ہے. ’’ھُدًی لِلنَّاسِ‘‘ صرف قرآن ہے‘جبکہ تورات ’’ہُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ‘‘ ہے. سورۃ السجدۃمیں بھی تورات کے لیے ’’ہُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ‘‘ آیاہے ـــ آگے فرمایا: اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾ ’’(اس تاکید کے ساتھ)کہ میرے سوا کسی کو اپنا کارساز مت سمجھنا‘‘.یعنی میرے علاوہ نہ کسی ذات پر بھروسا کرنا اور نہ مادی اسباب پر توکل کرنا.مثلاً اگر آپ نے کل صبح کہیں جانا ہے اور آپ نے گاڑی کو ہر طرح سے چیک کرلیا ہے‘ گاڑی کی ٹیوننگ بھی کرا لی ہے‘ سروس بھی کرا لی ہے‘ آئل بھی چینج کر لیا ہے‘ پٹرول یا ڈیزل سے ٹینکی بھی بھری ہوئی ہے‘ سب کچھ ہے ‘کوئی رکاوٹ نہیں ہے ‘لیکن آپ اگر ان مادی وسائل پر بھروسا کرتے ہوئے یہ کہیں کہ کل صبح میں اُٹھوں گا اور چل دوں گا تو یہ توکل علی اللہ کے منافی ہے.