استقامت علی الایمان باللہ یعنی اللہ پر ایمان اور اس پر استقامت کے تین تقاضے ہیں‘یا یوں کہیے کہ تین داخلی کیفیات وثمرات ہیں: محبت ِالٰہی‘ تسلیم و رضا‘ اورصبر و توکل. یہ تین چیزیں وہ ہیں جو وجود کے اندرہیں‘جبکہ اس استقامت کے کچھ خارجی ثمرات بھی ہیں‘ اور ان میں سب سے پہلا یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت اور اللہ کی مکمل عبادت.یعنی تمہارے وجود سے جو عمل بھی خارج ہو وہ اطاعت ِخداوندی اور اطاعت ِرسول کے سانچے میں ڈھل کر آئے.فانی کا ایک شعرہے‘جوشعر ہونے کے اعتبار سے بہت عمدہ ہے : ؎

فانی تمہارے عمل سراسر جبر ہی سہی 
سانچے میں اختیار کے ڈھالے ہوئے تو ہیں!

یہ ان لوگوں کا قول ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ انسان مجبور ِمحض ہے اور اس کی کوئی آزادی نہیں ہے. ہمارے ہاں اسلاف میں ایک طبقہ ایسا رہا ہے جن کو’’ جبریہ‘‘ کہا جاتا ہے اور فانی بھی ان میں سے ہے. وہ کہتا ہے کہ تم جو کچھ کر رہے ہو یہ سب اللہ کے جبر کے تحت ہے‘ لیکن ان کو اختیار کے سانچے میں بایں طور ڈھال دیا گیا ہے کہ تم محسوس کرتے ہو کہ یہ میں کر رہا ہوں.بہرحال ہمارے وجود سے جو بھی صادر ہو‘چاہے ہاتھ سے ہو‘ پاؤں سے ہو‘ ناک سے ہو‘ کان سے ہو‘ وہ اطاعت ِخدا اور اطاعت ِرسول کے سانچے میں ڈھل کر آئے. 

استقامت کی دوسری خارجی کیفیت ہے جہاد وانفاق فی سبیل اللہ. ایک طرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ استقامت کے دعوے اوردوسری طرف اللہ کے باغیوں سے دوستی یا اللہ کے غداروں کی غلامی پر راضی ہو جانا‘ یہ کہاں کا ایمان ہے؟ یہ تو ایمان کے منافی ہے. مؤمن اگر ایسے باطل سے باغی نہیں ہے تو پھروہ مؤمن کہاں ہوا؟ سورۃ البقرۃ میں جو آیا ہے: فَمَنۡ یَّکۡفُرۡ بِالطَّاغُوۡتِ وَ یُؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ فَقَدِ اسۡتَمۡسَکَ بِالۡعُرۡوَۃِ الۡوُثۡقٰی ٭ لَا انۡفِصَامَ لَہَا ؕ (البقرۃ:۲۵۶’’جو شخص طاغوت کا کفرکرے اور اللہ پر ایمان لائے اُس نے ایسا مضبوط حلقہ تھام لیا ہے جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘. دیکھئے طاغوت کا کفر پہلے ہے اور ایمان باللہ بعد میں ہے.اور اگر طاغوت جو اللہ کے سرکش ہیں‘ ان سے وفاداری اور دوستیاں ہیں تو پھر ایمان نہیں ہے. ایک حدیث میں آیا ہے:
 
اِذَا مُدِحَ الْفَاسِقُ اِھْتَزَّ لِذٰلِکَ الْعَرْشُ وَغَضِبَ لَہُ الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی 
(۱
’’جب کسی فاسق اور فاجر شخص کی مدح کی جاتی ہے تو عرشِ الٰہی کانپنے لگتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس پر بہت غضب ناک ہوتے ہیں.‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ میرا بندہ ہونے کا مدعی ہوکر ایک فاسق و فاجر کی تعریف کر رہا ہے ‘اس کی شان میں لمبا چوڑا سپاس نامہ پیش کر رہا ہے ‘تو اس پر اللہ عزوجل کو اتنا غصہ آتا ہے کہ عرش لرز اٹھتا ہے.اسی طرح ایک موقع پر رسول اللہ نے فرمایا: 

مَنْ وَقَّرَ فَاسِقًا فَقَدْ اَعَانَ عَلٰی ہَدْمِ الْاِسْلَامِ 
(۲
’’جس نے کسی فاسق کی توقیر کی تو اس نے اسلام کی جڑیں کھودنے میں مدد کی.‘‘

ہمارا جو مطالعہ قرآن حکیم کا منتخب نصاب ہے اس میں سورۃ التغابن اور سورۂ حٰمٓ السجدۃ کے دروس میں استقامت اور اس کے داخلی وخارجی ثمرات تفصیل کے ساتھ مذکورہیں.زیر مطالعہ حدیث کے ضمن میں اِن دروس کا مطالعہ ان شاء اللہ بہت مفید رہے گا.
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذات اور اپنی صفات پر یقین والا ایمانِ حقیقی عطا فرمائے اور اس کے جملہ داخلی اور خارجی تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین یارب العالمین! 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المُسلمین والمُسلمات 
(۱) رواہ ابن حبان ‘ راوی : انس بن مالک ص
(۲) طبقات الشافعیۃ لابن السبکی:۶/۳۱۳. تخریج الاحیاء للعراقی:۲/۱۱۱.