عام طور پر مذہبی مزاج کے لوگوں میں یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے‘ اس لیے کہ فرائض کی ادائیگی کو وہ کافی نہیں سمجھتے جب تک کہ ان فرائض کے ساتھ کوئی نوافل اور اضافی عبادات نہ ہوں. آپ کومعلوم ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بعض ایسے بھی تھے جو ساری ساری رات اپنے رب کے حضور کھڑے رہتے تھے. ا س ضمن میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کی مثال میں آپ کو کئی مرتبہ دے چکا ہوں.

حضرت عبداللہؓ کے بارے میں آتا ہے کہ ساری رات نوافل پڑھتے اور روزانہ روزہ رکھتے تھے. ان کو نہ بیوی سے کوئی سروکار تھا اور نہ دنیا کے کسی اور معاملے سے . جب رسول اللہ کو ان کے اس معمول کا پتا چلا تو آپؐ نے انہیں بلا کر پوچھا : یَاعَبْدَ اللّٰہِ اَلَمْ اُخْبَرْ اَ نَّکَ تَصُوْمُ النَّھَارَ وَتَقُوْمُ اللَّیْلَ’’اے عبداللہ !مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تم ہرروزروزہ رکھتے ہو اور پوری پوری رات (نفل میں) قیام کرتے ہو‘‘آپؓ نے عرض کیا: بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ’’ایسا ہی ہے یارسول اللہ!‘‘ آپؐ نے فرمایا: فَلَا تَفْعَلْ ’’توایسا ہرگز مت کرو!‘‘ صُمْ وَاَفْطِرْ وَقُمْ وَنَمْ ’’روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو‘ قیام بھی کرو اور نیند بھی کرو!‘‘ فَاِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِعَیْنِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَاِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا (۱’’اس لیے کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے ‘اور تمہاری آنکھ کا بھی تم پر حق ہے‘ اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے.‘‘

اس حوالے سے میں یہ واقعہ بھی آپ کو سنا چکا ہوں کہ تین صحابہؓ نے ازواجِ مطہراتؓ سے دریافت کیا کہ حضور رات کو کتنی دیر جاگ کر نوافل پڑھتے ہیں اور کتنی دیر آرام فرماتے ہیں؟ اور مہینے میں کتنے روزے رکھتے ہیں اور کتنے دن افطار کرتے ہیں؟ وغیرہ. جب ازواجِ مطہراتؓ نے ان صحابہ کو رسول اللہ کے معمولات بتا دیے تو انہوں نے سوچا کہ یہ عبادات تو کم ہیں.گویا ان کا گمان یہ تھا کہ حضور رات کو ایک لمحہ کے لیے بھی کمربستر پر نہیں لگاتے ہوں گے اور آپؐ مسلسل روزے رکھتے ہوں گے‘ کبھی ناغہ نہیں کرتے ہوں گے.انہوں نے معمولاتِ رسول اللہ کو قلیل سمجھا‘مگر انہوں نے اپنے دل کو یہ کہہ کر تھپکی دی کہ نبی اکرم تومعصوم عن الخطا ہیں اور آپؐ سے نہ کبھی کوئی گناہ سرزد ہوا ہے اور نہ آئندہ ہونے کا امکان ہےاگر امکان ہوتا بھی تو اللہ تعالیٰ پہلے ہی معاف کرچکا ہے: …لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ (الفتح:۲’’…تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کی اگلی اور پچھلی خطائیں بخش دے‘‘ جبکہ ہم تو گناہگار ہیں‘اس لیے ہمارے لیے اتنی عبادت کافی نہیں ہے .تو ان میں سے ایک نے کہا کہ میں ساری رات نوافل اداکروں گا‘کمر بستر سے نہیں لگاؤں گا. دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا‘ کبھی ناغہ نہیں کروں گا.تیسرے نے کہا کہ میں ساری عمر شادی بیاہ کے چکر میں نہیں پڑوں گا ظاہر بات ہے کہ کنبہ اور خاندان اور پھر ان کے ساتھ سو طرح کے جوجھمیلے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب النکاح‘ باب لزوجک علیک حق. ہوتے ہیں ‘ان کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے لو لگانا مشکل ہوجاتا ہے حضوراکرم کو جب اس سارے معاملے کی خبر ہوئی تو آپؐ نے ان کو بلاکرڈانٹااور آپؐ نے انتہائی غیر معمولی الفاظ ارشاد فرمائے: 

اَمَا وَاللّٰہِ اِنِّیْ لَاَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَاَتْقَاکُمْ لَـہٗ ‘ لٰـکِنِّیْ اَصُوْمُ وَاُفْطِرُ وَاُصَلِّیْ وَاَرْقُدُ وَاَتَزَوَّجُ النِّسَائَ‘ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ 
(۱
’’اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں‘ لیکن (جان لو )میں روزہ رکھتا بھی ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں‘ اور (رات کو) نماز بھی پڑھتا ہوں اور آرام بھی کرتا ہوں‘ اور میں نے عورتوں سے شادیاں بھی کی ہیں. پس جس کو میری سنت پسند نہیں اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں.‘‘