زیر مطالعہ حدیث میں بھی اُس شخص نے رسول اللہ سے فرائض کی اہمیت کو جانتے ہوئے فرض نماز اور فرض روزے کا پوچھا تھا فرض نماز کی اہمیت کے بارے میں مجھے ایک حدیث اور یاد آئی .حضور نے فرمایا: 

مَنْ صَلَّی الْعِشَائَ فِیْ جَمَاعَۃٍ کَانَ کَـقِیَامِ نِصْفِ لَـیْلَۃٍ وَمَنْ صَلَّی الْعِشَائَ وَالْفَجْرَ فِیْ جَمَاعَۃٍ کَانَ کَقِیَامِ لَـیْلَۃٍ 
(۱(۱) سنن ابی داوٗد‘ کتاب الصلوٰۃ‘ باب فی فضل صلاۃ الجماعۃ. ’’جس شخص نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گویا اُس نے آدھی رات قیام کیا اور جس شخص نے عشاء کی نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا کی اور پھر فجر کی بھی تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھ دیا جائے گا.‘‘

فرض کی یہ اہمیت ہے اور نجات کے لیے بھی بنیاد (base line) فرض عبادات ہیں. فرائض کی ادائیگی کے بعد آدمی سے جتنا اضافہ ہوسکے‘کرے‘لیکن اس کے ساتھ ساتھ حالات کو بھی پیش نظر رکھے.اس لیے کہ بعض حالات ایسے ہوں گے جس میں اصل اہمیت جہاد و قتال کی ہو جائے گی. اب ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسلامی نظام ‘ اسلامی حکومت اور نظامِ خلافت قائم ہے تو قتال کا معاملہ حکومت کے ذمے ہوگا اور حکومت اس کا انتظام کرے گی. اگر کہیں دس ہزار آدمیوں کی ضرورت ہے اور دس ہزار آدمی جانے کے لیے نکل آئے ہیں تو باقی آرام سے گھر میں سوئیں یا رات کو جاگ کر نوافل پڑھیں . یہ تقرب بالنوافل کا موقع ہو گا‘ لیکن اگر اللہ کا دین مغلوب ہے‘ پامال ہے‘ اسے پائوں تلے روندا جا رہا ہے‘ شریعت کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں‘ اوامر کا استہزاء ہو رہا ہے اور منکرات کی تبلیغ ہو رہی ہے تو اس صورتحال میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر فرض ہو جائے گا. اگر اُس وقت لوگ اس فرض کو ترک کر کے نوافل میں لگیں گے تو یہ نوافل اُن کے منہ پر دے مارے جائیں گے.

اس بات کو بہت زیادہ نمایاںکرنے کے لیے میں مثال دیتا ہوں. ذرا سوچیے‘ جب دامن اُحد میں معرکہ جاری تھا ‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورحضور اکرم کی جان پر بنی ہوئی تھی آپ کو معلوم ہے کہ غزوۂ اُحد میں رسول اللہ زخمی ہوئے اور آپؐ کا اتنا خون بہہ گیا کہ آپؐ بے ہوش ہو گئے اور یہ افواہ پھیل گئی کہ آپؐ شہید ہو گئے ہیں اُس وقت اگر کوئی شخص مسجد نبوی میں بیٹھا ہوا درود کی تسبیح پڑھ رہا ہو‘ یا نوافل ادا کر رہا ہو‘ یا قرآن مجید کی تلاوت کر رہا ہو تو اس کے بارے میں حکم لگایا جائے گا کہ وہ پکا منافق ہے .حالانکہ کام تو وہ اچھے کر رہا ہے . درود پڑھنے کی بہت فضیلت احادیث میں بیان ہوئی ہے اور اسی طرح نوافل بھی تقرب الی اللہ کا بہت بڑا ذریعہ ہیں.قرآن مجید کی تلاوت بھی اجروثواب کا خزانہ ہے کہ اس کے ایک ایک حرف پر دس دس نیکیوں کا ثواب ہے اورآپ نے یہ بھی فرمایا کہ الٓـــــمّٓ کو ایک حرف نہ سمجھنا‘بلکہ الف علیحدہ حرف ہے‘ لام علیحدہ ہے اور میم علیحدہ ہے. اس طرح الٓـــــمّٓ پڑھنے پر ۳۰نیکیاںہو گئیں. لیکن ہر حالت میں اور ہر وقت ایسا نہیں ہے. حالات کے مطابق جو چیز فرض ہو تو پہلے اس کی ادائیگی لازم ہے اور پھر نوافل کا درجہ آتا ہے.فرائض اور نوافل کے درجات کو ضرور ذہن میں رکھنا چاہیے ‘ورنہ ان نوافل کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی.