فرض نماز اور روزے کے بعد اُس شخص نے کہا: وَاَحْلَلْتُ الْحَلَالَ، وَحَرَّمْتُ الْحَرَامَ ’’اور میں حلال ہی پر قائم رہوں اور حرام سے مجتنب رہوں‘‘.گویا حلال کو حلال سمجھتے ہوئے حلال پر قائم رہنا بھی ضروری ہے‘ خواہ مخواہ حلال کو اپنی شدتِ تقویٰ کی وجہ سے حرام نہیں کرلینا چاہیے.ہمارے ایک فوت شدہ بزرگ کہا کرتے تھے کہ لوگوں کو ’’تقویٰ کا ہیضہ‘‘ ہو جاتا ہے اور وہ حلال چیزوں کو بھی چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں. حلال کو حلال سمجھنا اور ان کا استعمال کرنا چاہیے‘ جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں دو مقامات پر آیا:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ کُلُوۡا مِمَّا فِی الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ۫ۖ وَّ لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۶۸﴾
’’لوگو! جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو. وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے.‘‘
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ وَ اشۡکُرُوۡا لِلّٰہِ اِنۡ کُنۡتُمۡ اِیَّاہُ تَعۡبُدُوۡنَ ﴿۱۷۲﴾
’’اے اہل ایمان! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو عطا فرمائی ہیں‘ ان کو کھاؤ اور اگر خدا ہی کے بندے ہو تو اس (کی نعمتوں) کا شکر بھی ادا کرو.‘‘
سورۃ الاعراف میں فرمایا:
قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ قُلۡ ہِیَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا خَالِصَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لِقَوۡمٍ یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۲﴾
’’(اے نبیﷺ ! ) آپ کہیے کہ کس نے حرام کر دی ہیں زینت (وآرائش) اور کھانے پینے کی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے (زمین سے) نکالی ہیں! کہہ دیجیے کہ یہ سب چیزیں دنیا میں بھی اصلاً اہل ایمان کے لیے ہیں (لیکن یہ کہ دنیا میں ہم کفار کو بھی دیتے ہیں جتنا چاہتے ہیں) اور قیامت کے دن تو یہ اہل ایمان کے لیے خالص ہو جائیں گی (پھر کفار کے لیے ان میں حصہ رہے گا ہی نہیں). اسی طرح ہم اپنی آیات کی وضاحت کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو علم رکھتے ہیں.‘‘
لہٰذا تقویٰ میں یہ بھی شامل ہے کہ جو حلال شے ہے اسے حلال سمجھو اور استعمال کرو ‘اور جو حرام شے ہے اسے حرام سمجھو اور اس سے اجتناب کرو.
یہاں ایک مسئلہ یہ آ جاتا ہے‘ فرض کیجیے کہ کسی شخص کو بکری کا گوشت دیا گیا ہے‘جبکہ اسے بتایا گیا کہ یہ سور کا گوشت ہے اور وہ اسے سور کا گوشت سمجھ کر کھا رہا ہے تو وہ سور ہی کھا رہا ہے. حرام کو حرام سمجھنا ضروری ہے‘اس لیے اگر تمہیں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ سور کا گوشت ہے تو اس سے اجتناب لازم ہے. البتہ اگر تحقیق کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ بات غلط کہی گئی ہے اور یہ توبکری کا گوشت ہے تو پھر کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے.اگر بغیر تحقیق کے کھاؤگے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے حرام کھا رہے ہو.