اب آیئے اگلی حدیث کی طرف. دراصل حدیث ۲۳ جوامع الکلم کا گلدستہ ہے اور اس کے ہر جملے میں معانی کا اک جہاں پنہاں ہے. میں نے عرض کیا تھا کہ حضور کا اپنا فرمان ہے: اُوْتِیْتُ جَوَامِعَ الْکَلَمِ (۱’’مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ‘باب قول النبی بعثت بجوامع الکلم. وصحیح مسلم‘ کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ. جامع کلمات عطا ہوئے ہیں‘‘. جوامع الکلم سے مراد ہے دو‘ تین الفاظ میں بہت بڑی اور بہت ساری حقیقتوں کو سمودینا. یہ حضور کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک خاص عطیہ ہے. قرآن بھی جوامع الکلم ہے‘ مثلاً سورۃ العصر میں پورا قرآن مجید موجود ہے . سورۃ العصر کی صرف تین آیات ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ علیہاس کے بارے میں کہتے ہیں : لَــوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ لَوَسَعَتْھُمْ ’’اگر لوگ صرف اس ایک سورت پر غور و فکر کریں (اوراس کی گہرائی میں جائیں) تو یہ ان کی ہدایت کے لیے کافی ہو جائے گی‘‘.مفتی محمد عبدہٗ نے آخری پارہ کی جو تفسیرلکھی ہے اس میں امام شافعی کے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: لَوْ لَمْ یُنَزَّلْ مِنَ الْقُرْآنِ سِوَاھَا لَکَفَتِ النَّاسَ ’’اگر قرآن مجید میں سوائے اس (ایک سورۃ یعنی سورۃ العصر) کے اور کچھ نازل نہ ہوتا تو لوگوں کی ہدایت کے لیے یہی کافی تھا‘‘. سورۃ العصر کی اسی اہمیت کے پیش نظر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس سورۂ مبارکہ کے ساتھ بہت قلبی اُنس تھا.چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں حضرت ابومزینہ دارمی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت طبرانی کی ’’معجم الاوسط‘‘ میں اور امام بیہقی کی ’’شعب الایمان‘‘ میں منقول ہے کہ: 

کَانَ الرَّجُلَانِ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ  اِذَا الْتَقَیَا لَمْ یَتَفَرَّقَا حَتّٰی یَقْرَأَ اَحَدُھُمَا عَلَی الْآخَرِ سُوْرَۃَ الْعَصْرِ ثُمَّ یُسَلِّمُ اَحَدُھُمَا عَلَی الْآخَرِ 

’’نبی اکرم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی سے دو صحابہؓ جب بھی باہم ملاقات کرتے تھے تووہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوتے تھے جب تک کہ ایک دوسرے کو سورۃ العصر سنا نہ لیں‘ اس کے بعد وہ ایک دوسرے کو سلام کرکے رخصت ہوجاتے.‘‘

سورۃ العصر پھیلتی ہے‘ پھولتی ہے اور اس کے مضامین سے اس کی شاخیں بنتی ہیں. وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾ میں زمانہ‘ تاریخ‘تاریخی حالات وواقعات ‘انباء الرسل اور قصص النبیین آرہے ہیں. اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا میں ایمان کے مباحث آ رہے ہیں. وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ میں اعمالِ صالحہ کی تشریح آ رہی ہے. تَوَاصَوْا بِالْحَق میں اعمالِ صالحہ کے مدارج کا بیان ہے.گویایہ سورۃ پورے قرآن کے مضامین کا انڈیکس ہے. اس اعتبار سے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سورۃ العصر ایک ایسے بیج کی مانند ہے جس میں قرآن مجید کا پورا شجرۂ طیبہ موجود ہے. 

اسی طرح حضور اکرم کی احادیث بھی جوامع الکلم ہیں. ہم یہ حدیث بھی پڑھ چکے ہیں: اَلدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُابیہ دو لفظ ہیں‘لیکن ان دولفظوں میںگویا ہدایت کا ایک سمندر کوزے کے اندربند کر دیا گیاہے.اسی طرح زیر مطالعہ حدیث بھی جوامع الکلم میں سے ایک ہے اور اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس حدیث کے ہر ہرجملہ میں غوروفکرکرنے والوں کے لیے ہدایت کا وافر ذخیرہ موجود ہےاب اس حدیث کا جملہ وار مطالعہ کرتے ہیں: