حضور اکرم نے فرمایا: اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ ’’پاکی نصف ایمان ہے‘‘. پاکی نصف ایمان کیوں ہے؟ اس کے بارے میں نوٹ کر لیں کہ اس عالم کے اندر نیکی کے داعی اور نیکی کی طرف لوگوں کو بلانے والے بھی موجود ہیں اور خود اپنی ذات میں نیکی کے نمونے بھی موجود ہیں. یعنی فرشتے اور داعیانِ دین . اورشاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ علیہ کا یہ قول ہم پڑھ چکے ہیں کہ اولیاء اللہ کی ارواح کو بھی ان کے انتقال کے بعد اللہ تعالیٰ فرشتوں کے طبقہ اسفل میں شامل کر دیتے ہیں. اب فرشتوں کے ساتھ روحانی طور پر قرب حاصل کرنے کے لیے پاکی شرط ہے ‘اس لیے کہ وہ ناپاکی کے قریب نہیں آتے. جیسے رسول اللہ کا فرمان ہے : 

لَا تَدْخُلُ الْمَلَائِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ کَلْبٌ وَلَا صُوْرَۃُ تَمَاثِیْلَ 
(۱
’’جس گھر میں کتا ہو یا تصاویر ہوں تو اس گھر میں فرشتے داخل نہیں ہوتے.‘‘

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان چیزوں سے نیکی کو اور اس لطافت کو مناسبت نہیں ہے.اور اگر آپ اس طرح کا معاملہ کر رہے ہیں تو گویا فرشتوں کے قرب سے‘ ان کے لمس سے اور ان کے فیض سے آپ محروم رہ گئے. لیکن اگر آپ پاک رہیں گے تو یہ سب حاصل ہو گا. لہٰذا پاکیزگی ہرحال میں ہونی چاہیے ‘جیسے کہ حضور کا معمول تھا کہ رات کو سونے سے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب بدء الوحی‘ باب ذکر الملائکۃ.وصحیح مسلم‘کتاب اللباس والزینۃ‘باب تحریم تصویر صورۃ الحیوان… پہلے وضو فرماتے تھے‘ تاکہ سوتے ہوئے انسان پاکی کی حالت میں رہے. آپ کو معلوم ہے کہ جو اچھے خواب ہوتے ہیں وہ فرشتوں کی طرف سے ہوتے ہیں اور جو برے خواب ہوتے ہیں وہ شیطان یا اپنے نفس کی طرف سے ہوتے ہیں.لہٰذا نیک لوگوں اور فرشتوں کے قرب کے لیے پاکیزگی بے حد ضروری ہے.