سبحان اللہ اور الحمد للہ کی فضیلت

آگے رسول اللہ نے فرمایا: وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ الْمِیْزَانَ ’’اور الحمد للہ سے میزان پُر ہوجاتی ہے‘‘.میزان سے مراد ’’میزانِ عمل‘‘ ہے یعنی جو اللہ کے ہاں انسان کے اعمال کو تولنے کے لیے ترازو ہے اس ترازو کے پلڑے کو الحمد للہ کا چھوٹا سا کلمہ بھر دے گا. ایک حدیث میں آتا ہے : اَلتَّسْبِیْحُ نِصْفُ الْمِیْزَانِ‘ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ یَمْلَؤُہٗ (۱’’سبحان اللہ کہنا نصف میزان ہے اور الحمد للہ اس کو بھر دیتا ہے ‘‘.اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے دو پہلو ہیں. ایک ہے ’’سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ یعنی یہ یقین رکھنا کہ اللہ کے علم میں‘ اُس کی قدرت میں‘ اُس کی صفات میں‘ اُس کے کمالات میںکہیں کوئی کمی نہیں ہے‘ کوئی نقص اور کسی عیب کا کیا سوال!یہ ہے سبحان اللہ کا مفہوم. اگر واقعتا یہ قلب کی گہرائیوں سے نکل رہا ہے تو اس کی تاثیر اس حدیث میں بتا دی گئی کہ یہ نصف میزان ہے.جبکہ اللہ کی معرفت کا دوسرا پہلو ہے : ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ‘‘ یعنی اللہ کی نعمتوں پر اُس کا شکر بجا لانا. اللہ نے جو جو نعمتیں ہمیں دی ہیں ان کا ذکر بھی کرنا ہے اور اس پر اللہ کا شکر بھی ادا کرنا ہے .جیسے سورۃ الضحیٰ میں فرمایا: وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ ﴿٪۱۱﴾ ’’اور (لوگوں سے) اپنے رب کی نعمتوں کا تذکرہ بھی کرتے رہا کریں(کہ یہ بھی شکرگزاری کا ایک طریقہ ہے).‘‘

اس ضمن میں یہ بھی یاد رہے کہ قرآن مجید اللہ ربّ العزت کی بنی نوعِ انسان کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے.سورۃ الکہف کے آغاز میں فرمایا: اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰی عَبۡدِہِ الۡکِتٰبَ وَ لَمۡ یَجۡعَلۡ لَّہٗ عِوَجًا ؕ﴿ٜ۱﴾ ’’کل حمد و ثنا اور کل شکر اللہ ہی (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الدعوات‘ باب منہ. ومسند احمد‘ح:۲۱۹۹۵کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی‘‘.اسی طرح سورۃ الفرقان کے آغاز میں فرمایا: تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾ ’’بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر الفرقان اُتارا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو خبردار کرنے والا بن جائے‘‘.لہٰذا قرآن مجید کی اس عظیم نعمت پر اللہ کا شکر ادا کرنا ہم سب پر لازم ہے.

آگے رسول اللہ نے فرمایا: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ مَا بَیْنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ’’اور سبحان اللہ اور الحمد للہ (جب جمع ہو جائیں گے تو) وہ زمین اور آسمان کے درمیانی خلا کو بھر دیں گے‘‘.یہ ان دو کلمات کی عظمت کے بیان کا ایک اسلوب ہے. اس کو ہم مادی اعتبار سے نہیں سمجھ سکتے کہ اس سے مراد کیا ہے. صحیح بخاری کی آخری حدیث بھی ان کلمات کی عظمت کے بیان میں ہے . رسول اللہ نے فرمایا: 

کَلِمَتَانِ حَبِیْبَتَانِ اِلَی الرَّحْمٰنِ، ثَقِیْلَتَانِ فِی الْمِیْزَانِ، خَفِیْفَتَانِ عَلَی اللِّسَانِ : سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ 

’’دو کلمات ہیں جو رحمان کو بہت پسند ہیں‘ میزان میں بہت بھاری ہیں اور زبان پر بہت ہلکے ہیں. وہ ہیں: سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْم‘‘.