رسول اللہ نے مزید فرمایا: وَالصَّدَقَۃُ بُرْھَانٌ ’’اور صدقہ دلیل ہے‘‘. یعنی صدقہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ شخص واقعی صادق الایمان ہے. ’’آیت البر‘‘ میں آپ نے دیکھا کہ انفاق فی سبیل اللہ کے بعد کس قدر شدومد کے ساتھ آیا ہے: اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾ .فرمایا: 
لَیۡسَ الۡبِرَّ اَنۡ تُوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ قِبَلَ الۡمَشۡرِقِ وَ الۡمَغۡرِبِ وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ مَنۡ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ الۡکِتٰبِ وَ النَّبِیّٖنَ ۚ وَ اٰتَی الۡمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا ۚ وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ صَدَقُوۡا ؕ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾ 

’’نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دوبلکہ نیکی تو اُس کی ہے جو ایمان لائے اللہ پر‘ یومِ آخرت پر‘ فرشتوں پر‘ کتاب پر اور نبیوں پر.اوروہ خرچ کرے مال اس کی محبت کے باوجود قرابت داروں‘ یتیموں‘ محتاجوں‘ مسافروں اور مانگنے والوں پر اور گردنوں کے چھڑانے میں.اور قائم کرے نماز اور ادا کرے زکوٰۃ.اور جو پورا کرنے والے ہیں اپنے عہد کو جب کوئی عہدکرلیں.اور خاص طور پر صبر کرنے والے فقر و فاقہ میں‘ تکالیف میں اور جنگ کی حالت میں.یہ ہیں وہ لوگ جو سچے ہیں.اور یہی حقیقت میں متقی ہیں.‘‘

درحقیقت جب انسان اپنا مال صدقہ کے طور پر نکال کر دیتا ہے تو اس سے یہ ثابت ہوتاہے کہ اس کے دل میں ایمان ہے. تبھی تو وہ دے رہا ہے‘ ورنہ کاہے کو دیتا ہے کوئی شخص؟ ظاہر بات ہے ہر شخص اپنے مال سے نفع چاہتا ہے. اب ایک مادی نفع ہے جو آپ کو اس دنیا میں حاصل ہوتا ہے اور ایک نفع وہ ہے جو آخرت میں حاصل ہو گا اور یہ سب سے بڑا نفع ہے. لہٰذا جوشخص کسی مادی منفعت کے حصول کے لیے نہیں‘صرف اللہ کی رضا جوئی کے مال دیتا ہے‘ صدقہ کرتا ہے یہ گویا اس کے ایمان کا ثبوت ہے.