انسان اور مشقت: لازم و ملزوم

زیر مطالعہ حدیث کا آخر ی ٹکڑا بڑاحکیمانہ ہے. فرمایا: کُلُّ النَّاسِ یَغْدُوْ‘ فَـبَائِــعٌ نَفْسَہٗ ’’سب لوگ صبح کرتے ہیں اور پھر وہ (دن بھر) اپنی جان کو بیچتے ہیں‘‘. جان کو بیچنا کیا ہے‘ اس کو سمجھ لیجیے. ایک مزدور‘ مزدوری کر رہا ہے تو وہ اپنی توانائی کو‘ اپنی قوت کو استعمال کر رہا ہے ‘گویا وہ اپنے آپ کو بیچ رہا ہے.ا سی طرح ایک ڈاکٹر اپنا علم بیچ رہا ہے‘ بایں طور کہ وہ اپنے کلینک پر بیٹھا مریض کو دیکھتا ہے‘ نسخہ لکھ کے دیتا ہے اور پھر اپنی فیس لیتا ہے. گویا یہ بھی اپنے آپ کو بیچ رہا ہے. اسی طرح وکیل اپنے دماغ کو بیچتا ہے‘ عدالت میں جا کر دلائل دیتا ہے اور اس کے پیسے لیتا ہے. الغرض ہر شخص اپنے آپ کو بیچ رہا ہے. کوئی بھی شخص اس سے مستثنیٰ نہیں ہے. اس لیے آپ نے فرمایا کہ ہر شخْص صبح کرتا ہے تو اس کے بعد وہ دن بھر اپنے آپ کو بیچتا رہتاہے. اپنی توانائیاں‘ اپنی قوتیں‘ اپنی صلاحیتیں جو اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر رکھی ہوئی ہیں ان سب کو بروئے کار لاتا ہے‘ لیکن نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟

اس نتیجہ کے بارے میں آپ نے فرمایا: فَمُعْتِقُھَا اَوْ مُوْبِقُھَا ’’پس وہ اپنے نفس کو جہنم کی آگ سے بچا کر لے آتا ہے یا خود کو تباہ و برباد کر بیٹھتا ہے‘‘. یعنی اگر اُس نے کوئی حرام کام نہیں کیا ‘ کوئی غلط کام نہیں کیا‘ جھوٹ نہیں بولا‘خیانت نہیں کی تو وہ اپنے آپ کو بچالیتا ہے.اس نے مزدوری کا معاملہ طے کیا تھا کہ میں شام تک یہ محنت کروں گا اور سو روپے لوں گا تو پھر اُس نے کوئی وقت ضائع نہیں کیا . اُس نے یہ نہیں کیا کہ اب مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا تو میں آرام کرلوں‘ کیونکہ یہ خیانت ہے‘ اس لیے کہ اسے اس وقت محنت کرنی چاہیے. اسی طرح اگر آپ سرکاری ملازم ہیں‘آپ کو تنخواہ ملتی ہیں‘ آپ کے لیے مختلف سہولتیں اور مراعات ہیں‘ لیکن اگر آپ آفس جا کر خوش گپیاں کریں ‘ چائے پئیں اور دوستوں کو entertain کریں‘جبکہ دوسری طرف سائلین پریشان ہو رہے ہوں‘ ان کے کام نہ ہو رہے ہوں‘ فائلوں کے انبار میز پر لگ رہے ہوں تو یہ خیانت ہے‘ اس لیے کہ آپ نے اپنے فرائض ادا نہیں کیے. اس اعتبار سے گویا مشقت تو جھیلی ہے‘ محنت تو کی ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آپ نے اپنے نفس کو جہنم میں ڈال دیا ہے.مشقت اور محنت اپنی جگہ‘ لیکن آپ اگر ایسا کر رہے ہیں تو آپ شام کوگناہوں کی گٹھڑی لے کر واپس آ رہے ہیں.جبکہ اس مشقت اور محنت کے حوالے سے قرآن مجید میں قسمیں کھا کر کہاگیا ہے: لَاۤ اُقۡسِمُ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۱﴾وَ اَنۡتَ حِلٌّۢ بِہٰذَا الۡبَلَدِ ۙ﴿۲﴾وَ وَالِدٍ وَّ مَا وَلَدَ ۙ﴿۳﴾لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾ ’’نہیں‘مجھے قسم ہے اس شہر (مکہ) کی‘ جس میں (اے نبی !)آپ کو حلال کرلیا گیاہے.اور مجھے قسم ہے باپ (یعنی آدم) اور اُس کی اولاد کی‘ کہ ہم نے انسان کو مشقت (کی حالت) میں (رہنے والا)پیدا کیا .‘‘