خاص طور پر جب کسی معاشرے میں تقسیم دولت کا نظام غلط ہو جائے تواس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ایک طرف دولت کے انبار لگ جائیں گے اور دوسری طرف بھوک ‘ احتیاج اور فاقہ ہو گا. اسی لیے شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے کہا ہے کہ تقسیم دولت کا یہ غلط نظام دو دھاری تلوار ہے‘جواِدھر بھی کاٹتی ہے‘ اُدھر بھی کاٹتی ہے. اِدھر دولت جمع ہو گئی ہے تو عیاشیاں ہوں گی‘ بدمعاشیاں ہوں گی‘ اللے تللے ہوں گے. وہ بھی گویا انسان اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے. اسی لیے فرمایا گیا: اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا ﴿۲۷﴾ (بنی اسرائیل) ’’یہ بے جا خرچ کرنے والے توشیطانوں کے بھائی ہیں‘ اور شیطان اپنے رب کا بڑاناشکرا ہے‘‘. یہ فضول خرچ اس لیے بن گئے ہیں کہ ان کے پاس دولت جمع ہو گئی ہے اور دولت اپنا ظہور چاہتی ہے. دولت والے دنیا پر اپنا رعب گانٹھنا چاہتے ہیں کہ ہماری دولت اور اس کے مظاہر دیکھو.

دوسری طرف فقر و فاقہ ہے اور فقر کے حوالے سے یہ حدیث بھی پیش نظر رہنی چاہیے: کَادَ الْفَقْرُ اَنْ یَکُوْنَ کُفْرًا (۱’’فقر انسان کو کفر کے قریب لے جاتا ہے‘‘.جب انسان کفر کے قریب آ گیا تواب وہ ناشکرابن کر اللہ سے شکایت کرے گا یا وہ حرام میں منہ مارے گا یا خودکشی کر کے حرام موت مرجائے گا. اس لحاظ سے دولت کی تقسیم کا غلط نظام واقعتا دو دھاری تلوار ہے. لیکن ایک شخص فقر و فاقہ کے باوجود محنت کرکے حلال ذرائع سے اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کر رہاہے تو ایسے شخص کو اللہ کا دوست کہا گیا ہے.ایک حدیث بھی بیان کی جاتی ہے: اَلْـکَاسِبُ حَبِیْبُ اللّٰہِ(۲’’اَکل حلال کے لیے محنت و مشقت کرنے والا اللہ کا دوست ہے‘‘. دیکھئے لفظ ’’حَبِیْب‘‘ فعیل کے وزن پر ہے اور یہ فاعل اور مفعول دونوں کے معنی دیتا ہے.چنانچہ حَبِیْب کا معنی اللہ سے محبت کرنے والا بھی ہے اور اللہ کا محبوب بھی. حضرت ابو سعید خدری hروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: 

اَلتاَّجِرُ الصَّدُوْقُ الْاَمِیْنُ مَعَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَاءِِ 
(۳
’’امانت دار سچا تاجر (قیامت کے دن)انبیائ‘ صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا.‘‘ 

اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حَسَابًا یَسِیْرًا 

اس ضمن میں ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دنیا کی یہ محنت اور مشقت جھیل کر انسان آخرت کی کامیابیاں سمیٹتا ہے. اسی لیے فرمایا گیا

فَاَمَّا مَنۡ اُوۡتِیَ کِتٰبَہٗ بِیَمِیۡنِہٖ ۙ﴿۷﴾ (۱) مشکاۃ المصابیح‘کتاب الآداب‘ح :۵۰۵۱.وضعیف الجامع الصغیر‘ ح:۴۱۴۸‘ راوی:انس بن مالک رضی اللہ عنہ.
(۲) یہ حدیث دستیاب ذخیرۂ حدیث میں نہیں مل سکی.(مدیر)
(۳) سنن الترمذی‘ ابواب البیوع‘ باب ما جاء فی التجار وتسمیۃ النبی ایاہم. 
فَسَوۡفَ یُحَاسَبُ حِسَابًا یَّسِیۡرًا ۙ﴿۸﴾وَّ یَنۡقَلِبُ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ مَسۡرُوۡرًا ؕ﴿۹﴾ (الانشقاق) ’’تو جس کا اعمال نامہ اُس کے داہنے ہاتھ میں دے دیا گیا تو اس کا حساب بہت آسان لیا جائے گا اور وہ اپنے گھر والوں میں خوش خوش لوٹ کرآئے گا ‘‘.آسان حساب کے بارے میں حدیث میں بتایا گیا ہے کہ کسی تفصیل میں جائے بغیر بس صرف سرسری دیکھ لینا ہے اور اس کے برعکس جس سے تفصیلی حساب لے لیا گیاگویا وہ ہلاک ہو گیا.اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ یہ دعا فرمایاکرتے تھے: اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَسِیْرًا (۱’’اے اللہ!ممجھ سے حساب لیناآسان حساب!‘‘ ہمیں بھی اس دعا کا اہتمام کرنا چاہیے اور خاص طور پر قرآن مجید کی وہ سورتیں جن کا اختتام حساب کتاب پر ہوتا ہے‘ ان کو پڑھ کر یہ دعا ضرورمانگنی چاہیے.مثلاًسورۃ الزلزال کے آخر میں حساب کتاب کا ذکر ہے ‘وہا ں فرمایا: 

فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷﴾وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ ٪﴿۸﴾ 

’’تو جس نے ذرّہ بھر نیکی کی ہو گی وہ اس کو دیکھ لے گا. اور جس نے ذرّہ بھر برائی کی ہو گی وہ بھی اسے دیکھ لے گا.‘‘

اسی طرح سورۃ التکاثر کے آخر میں ہے: ثُمَّ لَتُسۡـَٔلُنَّ یَوۡمَئِذٍ عَنِ النَّعِیۡمِ ٪﴿۸﴾ ’’اُس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘.توایسے مقامات کی تلاوت کے بعد کہنا چاہیے: اَللّٰھُمَّ حَاسِبْنَا حِسَابًا یَسِیْرًا!