ایک حدیث میں یہ حساب کا معاملہ بڑے عجیب طریقے سے مذکور ہے.اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے گھر کئی وقت کا فاقہ تھا . وہ گھر سے نکل کر حضور اکرم کے پاس آئے.حضور کا بھی یہی حال تھا کہ آپؐ خود بھی کئی دنوں کے فاقے سے تھے. لیکن حضور نے پہچان لیا کہ عمر اس وقت فاقے (۱) رواہ احمد. مشکاۃ المصابیح‘کتاب احوال القیامۃ وبدء الخلق‘ باب الحساب والقصاص والمیزان. اور بھوک کی حالت میں ہیں اورمیرے پاس اس لیے آئے ہیں کہ شاید یہاں کھانے کے لیے کچھ ہو. تھوڑی دیر میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی آ گئے اور ان کا بھی یہی حال تھا. نبی مکرم شایداپنے لیے تو کچھ نہ کرتے‘ لیکن آپؐ اپنے ان دونوں ساتھیوں کو لے کر ایک انصاری صحابی ابوالہیثم بن تیھان رضی اللہ عنہ کے باغ میں پہنچے. ان کی تو گویا عید ہو گئی کہ حضور آ گئے اور ابوبکر وعمر( رضی اللہ عنہما) بھی. وہ دوڑ کر کچھ کھجوریں لے آئے جسے عربی میں ’’نُزُل‘‘ کہتے ہیں ‘یعنی مہمان جیسے ہی آئے توابتدائی مہمان نوازی کے طور پر فوری طور پر کچھ پیش کرنا.جیسے ہم مہمان کے آتے ہی اس سے پوچھتے ہیں کہ ٹھنڈاچلے گا یا گرم ؟اورپھر فوری طو رپر وہ پیش کردیتے ہیں اس کے بعد انصاری صحابیؓ نے چھری اُٹھائی تاکہ کسی جانور کو ذبح کریں اور گوشت پکائیں. حضور نے فرمایا: کسی دودھ والے جانور کو ذبح نہ کرنا. انہوں نے ایک جانور ذبح کیا اور اس کا گوشت بھون کر حضور اور ان دو اصحاب کے سامنے رکھا توانہوں نے وہ تناول فرمایا.اس کے بعد رسول اللہ نے ایک روٹی کے اوپر کچھ بوٹیاں رکھ کر کہا: جاؤ عائشہ کو دے آؤ‘ اسے بھی کئی وقت کا فاقہ ہے. اس موقع پر رسول اللہ نے فرمایا: 

ھٰذَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ مِنَ النَّعِیْمِ الَّذِیْ تُسْاَلُوْنَ عَنْہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ 
(۱
’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے‘ یاد رکھو کہ یہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں تم سے قیامت کے دن پوچھاجائے گا.‘‘

دیکھئے‘ اس فقر وفاقے اور احتیاج میں یہ چند چیزیں ملی ہیں تو ان کا حساب بھی ہو گا. 
اللہ تعالیٰ یومِ حشر کے حساب کو ہمارے لیے آسان کر دے اور ہمیں دنیا میں حق کے لیے‘ خیر کے لیے‘ اللہ کے دین کے لیے مشقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ‘ آمین یاربّ العالمین! 

اقولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات 
(۱) سنن الترمذی‘ابواب الزھد‘ باب ماجاء فی معیشۃ اصحاب النبی.