زیر مطالعہ حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں یہ پوری حدیث اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک اسم مبارک ’’اَلْغَنِیّ‘‘ کی تشریح اور وضاحت پر مبنی ہے. غَنِی کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے.مثلاًکبھی اس کا ترجمہ بے پروا کیا جاتا ہے اور کبھی بے نیاز ‘یعنی اسے نہ کوئی بڑی احتیاج ہے اور نہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی احتیاج ہے.الغرض وہ ہر شے سے بے پروا اور بے نیاز ہے. 

اللہ تعالیٰ کا یہ نام قرآن مجید میں بہت مرتبہ آیا ہے ’’غَنِیٌّ حَمِیْد‘‘ تین مرتبہ آیا ہے. وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۱۲﴾ (لقمٰن) ’’اورجو کوئی ناشکری کرتاہے تو اللہ غنی اور محمود ہے‘‘.یعنی وہ بے پروا بھی ہے اوراز خود محمود بھی ہے. کوئی اس کی حمد کرے نہ کرے‘ اس کی حمد پوری کائنات کر رہی ہے.جیسے فرمایا گیا: وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیۡمًا غَفُوۡرًا ﴿۴۴﴾ (بنی اسرائیل:۴۴’’اس کائنات میں کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اللہ کی تسبیح وتحمید نہ کر رہی ہو لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے‘‘سورۃ البقرۃکی آیت ۲۶۳ میں ’’غَنِیّ ٌحَلِیْمٌ‘‘ بھی آیا ہے: وَ اللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیۡمٌ ﴿۲۶۳﴾ ’’اللہ تعالیٰ بہت بے نیاز اور بہت حلیم ہے‘‘.یعنی وہ تمہارے گناہوں پر فوراً نہیں پکڑتا بلکہ تمہیں توبہ اور اصلاح کی مہلت دیتا ہے اسی طرح سورۃ النحل میں ’’غَنِیٌّ کَرِیْمٌ‘‘ بھی آیاہے: وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ ’’ اور جو کوئی ناشکری کرے تو میرا رب بہت بے نیاز اور بہت ہی مہربان ہے.‘‘ 

’’اَلْغَنِی‘‘ 
کا لفظ قرآن مجید میں آٹھ مرتبہ آیا ہے اور جو آیات میں نے ابتدا میں تلاوت کیں اُن میں بھی یہ لفظ مذکور ہے. اب ان آیات کا مطالعہ کرلیتے ہیں. پہلی آیت سورۂ لقمان کی ہے : وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ ’’اور ہم نے لقمان کوحکمت و دانائی عطا کی تھی کہ شکر کر اللہ کا ‘‘. یعنی دانائی اور حکمت کا بنیادی تقاضا ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا شکر انسان میں پیدا ہو جائے سورۂ لقمان کا دوسرا رکوع ہمارے مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا درس۳ ہے. یہ رکوع حکمت قرآنی‘ فلسفہ قرآنی اور خاص طور پر فلسفہ ایمان کے ضمن میں قرآن حکیم کا بہت جامع مقام ہے. زیرمطالعہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے ہی لقمان کو حکمت ودانائی عطا کی تھی تا کہ وہ اللہ کاشکراداکرے.آگے فرمایا: ؕ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ ’’اور جو کوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی بھلے کے لیے شکرکرتا ہے‘‘.اس کے شکر کرنے میں اللہ کا تو کوئی فائدہ نہیںہے اورنہ ہی اس شکر سے وہ اللہ کی کوئی ضرورت پوری کر رہا ہے.لہٰذا اگر وہ شکر کررہا ہے تو وہ اپنے بھلے اور اپنے فائدے کے لیے ہی کر رہا ہے‘ بایں طور کہ اگر انسان میں اللہ کے لیے شکر کا مادہ ہے تو اس کی اپنی شخصیت کا صحیح رخ پر اٹھان ہو گا اوردرحقیقت یہ اُس کی اپنی صحت ِمعنوی‘ صحت ِباطنی اور صحت ِروحانی کی دلیل ہے. 

آگے فرمایا: وَمَنْ کَفَرَ… ’’اور جو کفر کرے…‘‘ یہاں کفر کے معنی ناشکری کرنے کے ہیں . ہم اردو میں بھی ’’کفرانِ نعمت‘‘ بولتے ہیں. اس لیے کہ لفظ کفر کا اصل مفہوم ہے: کسی چیز کو چھپا دینا. ’’کفارہ‘‘ کی وجہ تسمیہ بھی یہ ہے کہ آپ سے کوئی گناہ ہو گیا اور آپ نے کفارہ اداکردیا تو وہ کفارہ آپ کے گناہ کو ڈھانپ لیتا ہے.اسی اعتبار سے کاشت کاروں کو بھی’’ کُفّار‘‘ کہا گیا ہےقرآن مجید میں ہے: اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ (الحدید:۲۰’’بارش کی اپچائی ہوئی کھیتی کاشت کاروں کو بہت اچھی لگتی ہے‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بھی بیج کو زمین میں چھپاتا ہے اور پھر وہ پودا بن کر نکلتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اگر احساسِ شکر قلب میں پیدا ہو اورانسان اس کو دبا دے‘ زبان سے ادا نہ کرے تو یہ کفرانِ نعمت ہے. اور اگر اللہ تعالیٰ کی توحید اور اللہ تعالیٰ کے وجود کی گواہی انسان کے باطن میں سے اُبھرے‘لیکن انسان اس کو دبا دے تو یہ کفر ہے . تو فرمایا: وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۱۲’’اورجو کوئی ناشکری کرتا ہے تو اللہ غنی اور محمود ہے‘‘. یعنی اللہ کو کسی کے شکر کی کوئی احتیاج نہیں ہے.جبکہ ناشکرا شخص خوداپنا بیڑا غرق کر رہا ہے‘ اپنی تباہی مول لے رہا ہے اور اپنی عاقبت برباد کر رہا ہے.دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تو از خودمحمود ہے‘ چاہے کوئی اس کی حمد کرے یانہ کرے.