اب آیئے اس حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں. اس میں سب سے پہلی بات انسانی معاملات کی درستگی سے متعلق آئی ہے‘ اس لیے کہ ہمارے دین میں عبادات اور معاملات دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے. عام مذہبی ذہن عبادات کو زیادہ اہمیت دیتا ہے کہ نماز روزہ کے بارے میں ذرا کمی بیشی ہو جائے تو وہ بہت فکرمند ہو تے ہیں مثلاً جو رفع یدین کو ضروری سمجھتے ہیں وہ رفع یدین نہ کرنے والوں کی طرف سے بُعد محسوس کر رہے ہوتے ہیں‘ لیکن معاملات کے بارے میں وہ اتنے حساس نہیں ہوتے ‘حالانکہ دین کے اعتبار سے اہم تر چیز معاملات ہیں.اس لیے کہ تم نے اگر ایک دوسرے پر کوئی زیادتی کی ہے تو اس زیادتی کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا‘ بلکہ تمہیں ہی کسی نہ کسی حیثیت میں اس کی تلافی (compensation) کرنا پڑے گی. اگر تم نے دنیا میں ہی اس زیادتی کا بدلہ چکا دیا تو ٹھیک‘ ورنہ قیامت کے دن تمہاری نیکیاں اس کے حوالے کر دی جائیں گی جس کا حق تمہارے ذمہ ہے‘ اور اگر تمہاری نیکیاں کم ہوں گی تو پھرحق داروں کے گناہ تمہارے حساب میں درج ہوں گے. الغرض انسانی معاملات کے ضمن میں یہ ڈیبٹ کریڈٹ ہوتا رہے گا. البتہ عبادات کے معاملے میں اللہ غنی ہے اور عبادات میں کمی کوتاہی کواللہ معاف فرماتا ہے. اگرچہ اسے اس کا پورا حق ہے ‘لیکن وہ بہت بلند و بالا ہے کہ اپنے حق کے بارے میں آپ سے جھگڑے. البتہ ایک دوسرے پر تم نے اگرکوئی تعدی‘ کوئی ظلم‘ کوئی حق تلفی‘ کوئی زیادتی کی ہے تو اس کے بارے میں لازماًپکڑ ہو جائے گی.

معاملات کی اسی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے زیر مطالعہ حدیث میں سب سے پہلی بات انسانی معاملات ہی سے متعلق آئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 

یَا عِبَادِیْ! اِنِّیْ حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلٰی نَفْسِیْ 
’’اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام ٹھہرا لیا ہے.‘‘ 

ظلم یہ بھی ہے کہ کسی کو اس کے اچھے عمل کا بدلہ نہ دیا جائے اور ظلم یہ بھی ہے کہ کسی کو ایسے جرم کی سزا دی جائے جو اُس نے کیا ہی نہیں ہے. دنیا میں تو ایسا ہوتا ہے‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں ظلم کا کوئی امکان نہیں ہو گا. 

وَجَعَلْتُہٗ بَیْنَکُمْ مُّحَرَّمًا ، فَـلَا تَظَالَمُوْا 

’’اور میں نے تم پر بھی آپس میں ظلم کو حرام کر دیا ہے ‘پس تم بھی ایک دوسرے پر ظلم نہ کیا کرو.‘‘

لہٰذا کوئی کسی پر زیادتی نہ کرے. جان لو کہ اگر کسی کے بارے میں سوئے ظن کر رہے ہو تو یہ بھی زیادتی کر رہے ہو جب تک کہ تمہارے پاس کوئی ثبوت نہ ہو. کسی کی غیبت کر رہے ہوتو یہ بھی بہت بڑا ظلم ہے.تمہارا یہ فعل ایسا ہی ہے گویا تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے ہو.ازروئے الفاظِ قرآنی: اَیُحِبُّ اَحَدُکُمۡ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحۡمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا فَکَرِہۡتُمُوۡہُ ؕ ’’کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟یہ تو تمہیں بہت ناگوار لگے گا(پس تم غیبت نہ کرو)‘‘.اسی طرح تم نے کسی کا مال مار لیا ہے ‘ کسی کو دھوکہ دے کر کوئی شے زیادہ دام میں فروخت کر دی ہے‘ کسی نے اپنی بہنوں کا وراثتی حصہ ہڑپ کر لیا ہے تو یہ ظلم ہے. اس حوالے سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنی ذات پر بھی ظلم کو حرام کیا ہے اور تمہارے مابین بھی ظلم کو حرام ٹھہرایا ہے‘لہٰذا تم بھی ایک دوسرے پر کسی قسم کا ظلم نہ کرو!