اس کے بعد فرمایا: 
یَا عِبَادِیْ! کُلُّـکُمْ ضَالٌّ اِلاَّ مَنْ ھَدَیْتُہٗ 

’’تم میں سے ہر شخص گمراہ ہے سوائے اُس کے جس کو میں ہدایت دے دوں.‘‘

دیکھئے ‘ایک کلی ہدایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام اور ایمان کی طرف ہمیں ہدایت دے دی.پھر ایک جزوی ہدایت ہوتی ہے . ہر قدم پر اور ہر چوراہے پر یہ کشمکش آجاتی ہے کہ یہ کریں یا یہ کریں! تو اللہ تعالیٰ ہدایت دیتا ہے . لہٰذا جہاں کہیں بھی محسوس ہو کہ ہدایت ملی ہے تو اللہ کے شکر کا کلمہ زبان سے نکلنا چاہیے: وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ ہَدٰىنَا لِہٰذَا ۟ وَ مَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ ۚ (الاعراف:۴۳’’اور کہیں گے کہ کل شکر اور کل حمد و ثناء اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت بخشی ‘اور ہم ہرگز ہدایت یافتہ نہ ہو سکتے تھے اگر اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نہ دیتا.‘‘ 

فَاسْتَھْدُوْنِیْ اَھْدِکُمْ 

’’پس مجھ سے ہدایت طلب کرتے رہا کرو‘ میں تمہیں ہدایت دوں گا.‘‘

اسی طلب ِہدایت کا ذکر سورۃ الفاتحہ میں ہے: اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾ ’’(اے اللہ!) سیدھے راستے کی طرف ہماری راہنمائی فرما‘‘. آپ کو معلوم ہے جو شخص یہ دعا مانگ رہا ہے وہ اللہ سے‘ اللہ کی توحید سے اوراس کی صفات سے واقف ہے.پھر وہ یومِ قیامت کو بھی مانتا ہے‘ اللہ کی رحمانیت‘ رحیمیت کو مانتا ہے اور اُس کے مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾ ہونے کو بھی مانتا ہے. اس کے ساتھ وہ اس بات کا بھی اقرار کر رہا ہے : اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ’’(اے اللہ!) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں‘‘ ان سب کے ہوتے ہوئے وہ کون سی ہدایت چاہتا ہے‘ اس کو سمجھ لیجیے. انسان ہر ہر قدم پر دوراہے پر آ جاتاہے اور بسا اوقات دو چیزوں میں بہت باریک سا فرق ہوتا ہے ‘جیسے کہ تکبر اور عزتِ نفس میں بڑا باریک سا فرق ہے. ہو سکتا ہے کوئی شخص اپنی عزتِ نفس کے اعتبار سے کوئی طرزِعمل اختیار کر رہا ہو‘جبکہ دیکھنے والے سمجھیں گے کہ اس میں تکبر ہے. ایسے معاملات میں نیت کا اعتبار ہو گا اور انسان کا معاملہ اس کی نیت کے حوالے سے ہی اللہ کے ہاں آئے گا.لہٰذا اللہ تعالیٰ سے کلی ہدایت کے ساتھ ساتھ جزوی ہدایت بھی طلب کرنی چاہیے.