اے میرے بندو! مجھ سے مانگو‘ میں تمہیں دوں گا

اس کے بعد وہ اصل معاملہ آ گیا جو میں نے کہا تھا کہ یہ حدیث اسم مبارک ’’اَلْغَنِیّ‘‘ کی تشریح پر مشتمل ہے. فرمایا:

یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ جَائِـعٌ اِلاَّ مَنْ اَطْعَمْتُہٗ ، فَاسْتَطْعِمُوْنِیْ اُطْعِمْکُمْ 
’’اے میرے بندو!تم میں سے ہر شخص بھوکا ہے سوائے اُس کے جسے میں کھلاؤں‘پس تم مجھ ہی سے کھانا مانگو‘ میں تمہیں کھانا ضرور دوں گا.‘‘

یعنی کھانے پینے اور رزق کی طلب مجھ سے کیا کرو‘ میں مزید دوں گا ‘اس لیے کہ میرے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے. 

یَا عِبَادِیْ! کُلُّکُمْ عَارٍ اِلاَّ مَنْ کَسَوْتُہٗ ، فَاسْتَـکْسُوْنِیْ اَکْسُکُمْ 
’’اے میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو‘ سوائے اُس کے جسے میں لباس عطا کروں ‘پس تم مجھ سے لباس طلب کرو.‘‘ 

یَا عِبَادِیْ! اِنَّـکُمْ تُخْطِئُوْنَ بِاللَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَاَنَا اَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا، فَاسْتَغْفِرُوْنِیْ اَغْفِرْلَــکُمْ 
’’اے میرے بندو! تم دن رات خطائیں کرتے ہواور میں تمام گناہوں کو معاف کرنے والا ہوں.پس تم مجھ سے مغفرت چاہو‘میں تمہیں (یعنی تمہارے سارے گناہوں کو) معاف کردوں گا.‘‘

یعنی تم سے رات اور دن میں تقصیرات اور کوتاہیاں ہوتی رہتی ہیں‘ گناہ سرزد ہوتے ہیں ‘ تو تم مجھ سے معافی مانگو‘ میں تمہاری معافی قبول کرنے والا ہوں. جیسے ایک حدیث میں آتا ہے. حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا: 

کُلُّ بَنِیْ آدَمَ خَطَّائٌ وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ 
(۱
’’تمام بنی آدم بہت خطاکار ہیں ‘لیکن ان خطاکاروں میں بہتر وہ ہیں جوبار بار توبہ کرنے والے ہیں.‘‘ 

خَطَّاء ‘فَعَّال 
کے وزن پر (قَہَّار کی طرح )مبالغے کا صیغہ ہے‘لہٰذا اس کے معنی انتہائی خطاکار کے ہیں.یہاں بھی آپ نے فرمایا کہ تم سب کے سب انتہائی خطاکار ہو‘ بایں طور کہ تم دن رات خطائیں کرتے ہو‘ لیکن گناہوں کی کثرت کے باوجود اگر کوئی خطا کارتوبہ کرلے تو ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کے تمام گناہ (۱) سنن الترمذی‘ ابواب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع. معاف فرمادیتا ہے اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا وَارْحَمْنَا وَاھْدِنَا وَارْزُقْـنَا! 
آگے فرمایا: 

یَا عِبَادِیْ! اِنَّــکُمْ لَنْ تَـبْلُغُوْا ضَرِّیْ فَتَضُرُّوْنِیْ 
’’اے میرے بندو! تم ہرگز میرے نقصان کو نہیں پہنچ سکتے کہ مجھے نقصان پہنچاؤ.‘‘

تمہاری تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے کہ تم مجھے کوئی نقصان پہنچاسکو. تم اگر کفر کر رہے ہو تو اس میں میراکوئی نقصان نہیں ہے‘ اسی طرح اگر تم میری جناب میں گستاخیاں کر رہے ہو تو یہ گستاخیاں بھی میرے کسی نقصان کا باعث نہیں ہیں. 

وَلَنْ تَبْلُغُوْا نَفْعِیْ فَتَنْفَعُوْنِیْ 

’’اور نہ ہی تم میرے نفع کو پہنچ سکتے ہو کہ مجھے نفع پہنچاؤ.‘‘

یہ بات بھی اللہ کی اس صفت کا مظہر ہے کہ وہ الغنی ہے اور اسے کسی کی کوئی احتیاج نہیں ہے.