’’تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کی پیروی کروگے!‘‘

عیسائیوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا بنا دینا عقیدت و محبت کا غلو ہے. یہی غلو ہمارے ہاں بھی چلا آ رہا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی سرشت بدلتی نہیں ہے. پہلے والے انسان جس طرح کی گمراہیوں میں مبتلا ہوئے تھے‘ایسے ہی آج بھی ہو گئے ہیں. ایک حدیث میں تو رسول اللہ نے یہاں تک فرما دیا : 

لَتَرْکَبُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وذِرَاعًا بِذِرَاعٍ وَباَعًا بِبَاعِِ ٍ ٍ حَتّٰی لَوْ اَنَّ اَحَدَہُمْ دَخَلَ جُحْرَ ضَبٍّ لَدَخَلْتُمَ وَحَتّٰی لَوْ أَنَّ أَحَدَہُمْ جَامَعَ أُمَّہُ لفَعَلْتُمْ (۱
’’تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوںکی پیروی کروگے بالشت در بالشت‘ہاتھ در ہاتھ اور باع(دونوں ہاتھوں کی لمبائی)در باع‘ یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی گوہ کے بل میں گھسا ہو گا تو تم بھی ضرور گھسو گے. اور اگر ان میں سے کسی بدبخت نے اپنی ماں کے ساتھ بدکاری کی ہو گی تو تم بھی ایسا ضرورکروگے.‘‘

امام بخاری ومسلم کی نقل کردہ روایت کے آخر میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ سوال بھی درج ہے کہ انہوں نے پوچھا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَاریٰ؟ ’’اے اللہ کے رسول ! کیا پہلے لوگوں سے مراد یہود ونصاریٰ ہیں؟‘‘ آپ نے فرمایا : فَمَنْ؟ ’’تو اور کون مراد ہیں؟‘‘یعنی تم سے پہلے کی اُمت یہود ونصاریٰ ہی توہیں . اوروہ اُمت مسلمہ بھی تھے. ہم اس زعم میں نہ رہیں کہ ہم ہی امت مسلمہ ہیں. وہ جو غالب نے کہاتھا کہ ؎

ریختہ کے تم ہی اُستاد نہیں ہو غالب
سنتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا!

اسی طرح صرف ہم ہی اُمت مسلمہ نہیں ہیں‘ بلکہ ہم سے پہلے یہود بھی امت مسلمہ تھے. اور نوٹ کیجیے کہ قرآن مجید میں چار مقامات پر ان ہی یہودیوں کے بارے میں آیا ہے کہ ہم نے انہیں تمام انسانوں پر فضیلت دی. دو مرتبہ سورۃ البقرۃ میں آیا ہے‘ چنانچہ سورۃ البقرۃ کے چھٹے رکوع کی پہلی آیت اور پندرہویں رکوع کی پہلی آیت کے الفاظ یکساں ہیں : 

یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۷﴾ 

’’اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کیے تھے اور یہ کہ میں نے تم کو جہان کے لوگوں پر فضیلت بخشی.‘‘

اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام جہان والوں پر فضیلت دی ‘لیکن ان میں گمراہیاں پیدا ہو گئیں اور ان کی ایک بڑی گمراہی یہ ہے کہ انہوں نے تورات میں تحریفات کیں. (۱) السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی‘ ح ۱۳۴۸.ومجمع الزوائد للھیثمی.راوی:عبداللّٰہ بن عباسؓ . اللہ تعالیٰ نے چونکہ قرآن مجید کی حفاظت اپنے ذمے لے لی تو یہ اُمت اس گمراہی سے بچی ہوئی ہے‘ لیکن یہ حفاظت صرف متن قرآن کو حاصل ہے. ترجموں اور تفسیروں میں تحریفیں ہوئی ہیں اور ڈٹ کر ہوئی ہیں. جیسے اقبال نے کہا ؎

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق!

البتہ قرآن مجیدکے متن کے اندر کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی‘ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی خصوصی حفاظت میں ہے: اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا الذِّکۡرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوۡنَ ﴿۹﴾ (الحجر) ’’بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم نے اُتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں‘‘. ورنہ نوٹ کر لیجیے کہ اگر تورات اور انجیل کی حفاظت بھی اللہ تعالیٰ اپنے ذمے لے لیتا توکیا ان میں کوئی تحریف ہو سکتی تھی؟ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص حفاظت میں قرآن مجید کو نہ لے لیا ہوتا تو کیا ہم قرآن میں تحریف سے باز رہتے؟