راویٔ حدیث: حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا تعارف

پہلی حدیث حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور میں نے کئی مرتبہ ان کا تعارف بیان کیا ہے کہ یہ فقرائے صحابہ ؓ میں سے تھے. ان کو دنیا سے کوئی سروکار نہیں تھا اور ان کے زہد کے بارے میںرسول اللہ کا یہ فرمان ہم پڑھ چکے ہیں کہ: 

مَنْ سَرَّہٗ اَنْ یَنْظُرَ اِلٰی تَوَاضُعِ عِیْسٰی فَلْیَنْظُرْ اِلٰی اَبِیْ ذَرٍّ 

’’اگر کسی شخص کو اس سے خوشی ہو کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زہد و تقویٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے تو (وہ میرے اس ساتھی اور دوست )ابوذر کو دیکھ لے.‘‘

البتہ ایک بات واضح رہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ایک وصف کسی شخص میں اپنی انتہاتک پہنچا ہوا ہے تو دوسرے اعتبارات سے بھی اس کے اندر صلاحیت اسی درجے کی ہو. حضرت ابوذرؓ سے ہی یہ واقعہ پیش آیا کہ انہوں نے حضور سے درخواست کہ مجھے بھی آپ کہیں گورنر اور والی لگا دیں‘تو آپؐ نے فرمایا:

یَا أَبَا ذَرٍّ إِنَّکَ ضَعِیْفٌ وَإِنَّـہَا أَمَانَـۃٌ وَإِنَّہَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَنَدَامَۃٌ ‘ إِلَّا مَنْ أَخَذَہَا بِحَقِّہَا وَأَدَّی الَّذِیْ عَلَیْہِ فِیْہَا 
(۱
’’ اے ابوذر !تم کمزور ہو اور یہ امارت ایک امانت (اور بہت بڑی ذمہ داری) ہے. یہ قیامت کے دن رسوائی اور شرمندگی کا باعث ہے‘ سوائے اُس کے جس نے اس کے حقوق پورے کیے اور اس بارے میں جو اس کی ذمہ داری تھی‘ اس کو ادا کیا.‘‘

یعنی درویشی اور زہد ایک الگ چیز ہے‘ جبکہ انتظامی صلاحیت کا ہونا بالکل دوسری بات ہے اور اس اعتبار سے تم کمزور ہو. یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو مال و دولت جمع کرنے کے حولے سے ایک مغالطہ بھی لاحق ہوگیا تھا. اس لیے کہ سورۃ التوبہ کی آیات ۳۴۳۵ میں فرمایا گیا ہے: 

وَ الَّذِیۡنَ یَکۡنِزُوۡنَ الذَّہَبَ وَ الۡفِضَّۃَ وَ لَا یُنۡفِقُوۡنَہَا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۙ فَبَشِّرۡہُمۡ بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ ﴿ۙ۳۴﴾یَّوۡمَ یُحۡمٰی عَلَیۡہَا فِیۡ نَارِ جَہَنَّمَ فَتُکۡوٰی بِہَا جِبَاہُہُمۡ وَ جُنُوۡبُہُمۡ وَ ظُہُوۡرُہُمۡ ؕ ہٰذَا مَا کَنَزۡتُمۡ لِاَنۡفُسِکُمۡ فَذُوۡقُوۡا مَا کُنۡتُمۡ تَکۡنِزُوۡنَ ﴿۳۵﴾ 

’’ اور وہ لوگ جو جمع کرتے ہیں اپنے پاس سونا اور چاندی اور خر چ نہیں کرتے اس کو اللہ کی راہ میں‘تو ان کو بشارت دے دیجیے درد ناک عذاب کی.جس دن ان (سونے اور چاندی) کو تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں اور پھر داغا جائے گا ان سے ان کی پیشانیوں ‘ان کے پہلوئوں اور ان کی پیٹھوں کو. (اور ساتھ کہا جائے گا) یہ ہے جو تم نے اپنے لیے اکٹھا کیا تھا ‘تو اب چکھو مزا اس کا جو کچھ تم جمع کرتے تھے.‘‘

اسی حوالے سے سورۃ البقرۃ میں دوسرا حکم یہ آیا: 

وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ قُلِ الۡعَفۡوَؕ 
(البقرۃ:۲۱۹
’’(اے نبی !) یہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ( اللہ کی راہ میں )کتنا خرچ (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الامارۃ‘ باب کراہۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ. کریں؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو بھی ضرورت سے زائد ہے!‘‘

قرآن مجید کی ان آیات کی روشنی میں حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ایک درہم اور ایک دینار بھی اپنے پاس جمع رکھنا حرام ہے. یہ عدمِ توازن تھا ‘ جبکہ شریعت تو توازن چاہتی ہے . آپ کام کریں‘ محنت کریں‘ مشقت کریں‘ کاروبار کریں. آپ کو جو ملا ہے وہ اگر ایک خاص حد (فقہی اصطلاح میں جس کو’’نصاب‘‘ سے تعبیر کیاگیا ہے) سے آگے بڑھ گیا ہے تو زکوٰۃ دیں. باقی کو آپ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں‘ لیکن یہ رکھنا لازم نہیں ہے. اسی طرح اگر آپ چاہیں تو سارے کا سارا مال اللہ کی راہ میں خرچ بھی کر سکتے ہیں‘ لیکن یہ سارا خرچ کرنا بھی لازم نہیں ہے.اگر آپ سارا اللہ کی راہ میں دے دیں گے تو بہت اونچا مقام حاصل کر لیں گے‘لیکن بعض اوقات حضور نے اس سے منع بھی فرمایا ہے. ایک صحابی حضور کے پاس آئے اور عرض کی کہ میں اپنی ساری دولت اللہ کی راہ میں دے دینا چاہتا ہوں. آپؐ نے فرمایا: یہ اچھی بات نہیں کہ تم اپنی اولاد کو فقیر کر کے چھوڑ جاؤ. انہوں نے عرض کیاکہ پھر آدھا دے دیتا ہوں. آپ نے فرمایا: نہیں‘ آدھا بھی بہت زیادہ ہے. انہوں نے عرض کیا کہ ایک تہائی حصہ.اس پر آپ نے فرمایا کہ ایک تہائی ٹھیک ہے اور یہ بھی بہت ہے‘ کم نہیں ہے.