زیر مطالعہ حدیث نمبر ۲۵ اصل میں احکام‘ ہدایات اور تعلیمات کا ایک عجیب گلدستہ ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ بہت متوازن ہیں‘ لیکن بسا اوقات آدمی اپنی کسی انتہا پسندی کی وجہ سے خود غیر متوازن ہو جاتا ہے. حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اَنَّ نَاسًا مِّنْ اَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ قَالُوْا لِلنَّبِیِّ  : ’’اللہ کے رسول  کے صحابہؓ میں سے بعض نے حضور سے کہا:‘‘ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! ذَھَبَ اَھْلُ الدُّثُوْرِ بِالْاُجُوْرِ ’’اے اللہ کے رسول ! دولت مند لوگ تو اجر و ثواب میں آگے نکل گئے‘‘. یعنی دولت مند اپنی دولت کو اللہ میں راہ میں خرچ کرکے ہم سے اجر وثواب میں بازی لے گئے اور ہم ان سے پیچھے رہ گئے. آگے خود ہی اس کی وضاحت بھی بیان کردی کہ: یُصَلُّوْنَ کَمَا نُصَلِّیْ‘ وَیَصُوْمُوْنَ کَمَا نَصُوْمُ ’’وہ نمازیں پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں‘اور وہ روزے بھی رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں ‘‘ وَیَتَصَدَّقُوْنَ بِفُضُوْلِ اَمْوَالِھِمْ ’’اور وہ صدقہ کرتے ہیں اپنے زائد اموال میں سے ‘‘. اس میں یہ سوال مضمر ہے کہ ہمارے پاس مال ہے نہیں ‘تو ہم صدقہ نہیں کر سکتے اور اس اعتبار سے ہم ان سے پیچھے رہ گئے.