انسانوں میں امیر غریب کی تقسیم کیوں؟

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مابین امیر غریب کی جو تقسیم رکھی ہے یہ اُس کی حکمت پر مبنی ہے. اس سے مقصود آزمائش ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے کون ہیں جو ہرحال میں اُس کا شکر ادا کرتے ہیں!دیکھئے‘ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے مابین ایک تقسیم تو فطری طور پر رکھی ہے کہ کوئی شخص پیدائشی طور پر زیادہ ذہین ہے اور کوئی کند ذہن ہے.آپ کو آپ کے والدین کی طرف سے کچھ اور قسم کے جینز ملے ہیں‘جبکہ مجھے کچھ اور قسم کے جینز ملے ہیں.یہ تو اللہ کی تقدیر ہے اور ایمان بالقدر کے بارے میں ہم ’’اربعین نووی‘‘ کی چوتھی حدیث کے ذیل میں مفصل گفتگو کر چکے ہیں . تو یہ فرق دنیا میں موجود ہے. اسی طرح ایک شخص میں فطری طور پر محنت کا مادہ زیادہ ہے تو وہ زیادہ کما رہا ہے جبکہ ایک میں کم ہے تو وہ کم کما رہا ہے.البتہ یہ ضرور ہے کہ اگر غریبی اور امیری کے فرق کا سبب ہمارے نظام میں کوئی خرابی ہے تو اس خرابی کو درست کرنا چاہیے اور نظام میں مواقع سب کے لیے برابر ہونے چاہئیں. بدقسمتی سے یہ ماننا پڑتا ہے کہ نام نہاداسلامی ممالک میں ایسا نظامنہیں ہے‘ لیکن دنیا نے یہ کر کے دکھایا ہے. امیر کا بچہ ہو یا غریب کا‘ تعلیم دونوں کو ایک ہی ملے گی‘ ورنہ اگر مواقع برابر نہ ملیں تو امیر کا بچہ آگے نکل جائے گا اور غریب کا بچہ پیچھے رہ جائے گا‘ چاہے وہ امیر کے بچے سے ذہین تر ہے اور اگر اسے مواقع ملتے تو شاید وہ امیر کے بچے سے آگے نکل جاتا.اسی طرح علاج بھی سب کا ایک جیسا ہونا چاہیے. یہ دنیا نے کر کے دکھایاہے ‘وہ تو کمیونزم میں معاملہ ایک انتہا کو چلا گیا تھا‘ لیکن بعد میں کمیونزم اور سرمایہ داری (Capitalism) کے درمیان ایک synthesis ہوا ہے. انسان جب سوچتا ہے تو ایک نظام اپنے ذہن سے اختراع کرتا ہے‘ یہ گویا ایک دعویٰ ( thesis) ہوتا ہے. لیکن جب اس نظام پر چلتا ہے تو اس کی خرابیاں ظاہر ہوتی ہیں اور ردعملکے طور پر ایک جواب دعویٰ (anti-thesis) وجود میں آتا ہے. پھریہ thesis اور anti-thesis آپس میں ٹکراتے ہیں‘ لیکن بالآخر ان میں صلح ہو جاتی ہے اور یہ مل جاتے ہیں. پھر کوشش کی جاتی ہے کہ ان دونوں کی بھلائیاں جمع کر لی جائیں. دیکھئے‘شہنشاہیت اور جاگیرداری کاختم ہونانوعِ انسانی کا ترقی کی طرف ایک قدم تھا. پہلے یوں تھا کہ یہ بادشاہ ہیں‘ ان کے محل ہیں‘ ان کی عیاشیاں ہیں.انہوں نے فوجیں کھڑی کر رکھی ہیں‘ کوئی ذرا بولے تو سہی ‘ کوئی ذرا لگان د ینے سے انکارتو کرے ‘ اُس کا گھر بار جلا کے راکھ کر دیں گے. وہ نظام ختم ہوا تو جمہوریت آ گئی ‘جسے دنیا میں سمجھا جاتا ہے کہ بہت اعلیٰ شے آ گئی ہے‘ لیکن اس میں بھی دولت کا نظام جوں کا توں رہا.پھر اس جمہوریت سے سرمایہ داری نظام وجود میں آگیا.پہلے جاگیردار لوگوں کی گردنوں پر سوار تھا اب سرمایہ دار سوار ہو گیا. سرمایہ دار کا کارخانہ ہے ‘ ہزاروں مزدور کام کر رہے ہیں‘ ان کی محنت سے جو حاصل ہورہا ہے اس کا سب سے بڑا حصہ (lion"s share) سرمایہ دار لے جا رہا ہے اور مزدوروں کو بس اس قدر تنخواہ دی جا رہی ہے جس سے ان کے جسم و جان کا رشتہ برقرار رہ سکے. اگر مزدور کہتے ہیں کہ ہم کام نہیں کریں گے تو سرمایہ دارکہتا ہے: نہ کرو‘ بھاڑ میں جائو‘ زیادہ احتجاج کیا تو میں کارخانہ بند کردوں گا. اسے پتا ہے کہ اس کا کارخانہ ایک مہینہ بھی بند رہے گا تو اس کے بچوں کو فاقہ نہیں آئے گا‘ جبکہ مزدور جانتا ہے کہ اگر اسے دو دن دیہاڑی نہ ملے گی تو اس کے گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑا جائے گا. تو سرمایہ دار مزدوروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہیں.

جب لیبر یونینز کا نظام آیا تو اس کا کچھ علاج کرنے کی کوشش کی گئی ‘بایں طورکہ ان کی ایک bargaining value بن جائے اور وہ قوت کے ساتھ جمع ہو کر اپنے حق کے لیے کھڑے ہو جائیں . بہرحال سرمایہ داری کے ردعمل میںکمیونزم آیا. اب یہ کمیونزم بھی چونکہ انسانی ذہن کی پیداوار تھی اس لیے اس کے اندر بھی ایک بے اعتدالی آگئی اوروہ تھی ذاتی ملکیت کی مطلق نفی‘ جو ایک احمقانہ بات ہے . پہلے تو یہ اس انتہا پر تھے کہ آپ کا گھر اور اس کا سامان‘ حتیٰ کہ آپ کے زیر استعمال سائیکل تک بھی آپ کی ذاتی ملکیت نہیں ہے.کوئی چیز ذاتی ہے ہی نہیں‘ سب قومی ملکیت ہیں. سب کام کریں اور اجرت حاصل کر کے کھائیں پئیں.ہاں انہوں نے یہ ضرور کیا تھا کہ اُجرتوں (wages) کے اندربہت زیادہ فرق و تفاوت نہیں رکھا‘ بس ایک سے تین کی نسبت تھی.

زیر مطالعہ حدیث میں فقراء صحابہ ؓ نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ یہ ناانصافی ہے ‘کہ ہمارے پاس دولت نہیں ہے اوران کے پاس دولت ہے. انہوں نے کہا کہ ان حضرات کے پاس جو زائد مال ہے اس کو وہ صدقہ کرتے ہیں. یہاں فُضُول کا لفظ آیا ہے اورعربی میں فضول کا مطلب اردو کی طرح بے کارشے نہیں ہے‘بلکہ یہ فَضْل سے ہے اور فضل کہتے ہیں بلااستحقاق ضرورت سے زائد ملنی والی چیزکو.مثلاًآپ نے چند مزدور سوروپے دیہاڑی پر رکھے اور آپ نے دیکھا کہ ایک مزدور دن بھربڑی تندہی کے ساتھ کام کرتا رہا ہے‘ اسے آپ نے شام کو سو کے بجائے ایک سو دس روپے دے دیے تو یہ فضل ہے. وہ د س روپے اس کااستحقاق نہیں ہے اور وہ مانگ بھی نہیں سکتا‘بلکہ یہ فَضْل ہے.