حقوقِ زوجیت ادا کرنا بھی صدقہ ہے

آگے صدقہ کی وسعت کا معاملہ اپنی انتہا کو پہنچ رہا ہے.آپ نے فرمایا: وَفِیْ بُضْعِ اَحَدِکُمْ صَدَقَۃٌ ’’تمہارا اپنی بیوی سے ہم بستری کرنا بھی صدقہ ہے‘‘.یہ بات آپ کو دنیا جہان کی مذہبی و اخلاقی تعلیمات میں کہیں اور نہیں مل سکتی. یہ تو خالص حیوانی اور نفسانی تقاضا ہے اور اس کو بھی صدقہ قرار دے دیا گیا ہے. چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کہا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! أَیَاْتِیْ اَحَدُنَا شَھْوَتَہٗ وَیَـکُوْنُ لَــہٗ فِیْھَا اَجْرٌ؟ ’’اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے ایک شخص جو اپنی شہوت کا تقاضا پورا کر رہا ہے‘ کیا اس پر بھی اسے اجر ملے گا؟‘‘آپ نے فرمایا: أَرَاَیْتُمْ لَــوْ وَضَعَھَا فِی حَرَامٍ‘ أَکَانَ عَلَیْہِ وِزْرٌ؟ ’’(تم نے کبھی سوچا ہے کہ) اگر وہ یہی کام حرام راستے سے کرتا تو اس پر گناہ ملتا کہ نہیں ؟‘‘ظاہری بات ہے کہ اگر کوئی حرام ذریعے سے اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرتا ہے تو گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ قابل سزا جرم بھی ہے تو آپ نے فرمایا: فَـکَذٰلِکَ اِذَا وَضَعَھَا فِی الْحَلَالِ کَانَ لَـہٗ اَجْرٌ’’اس طرح وہ یہ کام حلال طریقے سے کر رہا ہے تو اس کو اجر بھی ملے گا.‘‘

یہ وہی بات ہے جو میں نے شروع میں کہی تھی کہ دنیا کو دین کے تابع کر دو تو آپ کی پوری دنیاداری دینداری بن جائے گی. آپ کا کسب معاش کی جدوجہد کرنا‘ بیوی کا حق ادا کرنا‘اپنے نفس کا حق ادا کرنا‘ملاقات کے لیے آنے والے کا حق ادا کرنا سب عبادت شمار ہوگا. حضور اکرم کا ارشاد ہے : فَإِنَّ لِأَہْلِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِضَیْفِکَ عَلَیْکَ حَقًّا وَإِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا (۱’’پس یقینا تجھ پر تیری بیوی کا بھی حق ہے‘ تیرے مہمان کا بھی حق ہے اور تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے ‘‘. اب ان حقوق کو دین کے تابع رہتے ہوئے پورے کرو گے تو یہ عبادت اور باعث ثواب ہے.