اب ہم اگلی حدیث (۲۷)کا مطالعہ کرتے ہیں .یہ بھی اُن احادیث میں سے ایک ہے جنہیں حضور نے جوامع الکلم سے تعبیر فرمایا ہے. یہ حدیث حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ ’’اصل نیکی حسن اخلاق ہے‘‘ ’’نیکی کی حقیقت ‘‘کے عنوان سے ہمارے ’’مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب‘‘ کا ایک اہم درس سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۷ پر مشتمل ہے‘جسے ’’آیت البر‘‘سے موسوم کیا جاتا ہے. اس کا رواں ترجمہ ملاحظہ کیجیے:

’’نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو‘بلکہ اصل نیکی اُس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر ‘اور یومِ آخر پر‘ اور فرشتوں پر ‘اور کتابوں پر اور انبیاء پر.اور دیا اس نے مال اس کی محبت کے علی الرغم رشتے داروں کو‘اور یتیموں کو‘اور محتاجوں کو‘اور مسافرکو‘اور سائلوں کواور گردنوں کے چھڑانے میں.اور قائم کی اس نے نماز اور ادا کی زکوٰۃ.اور پورا کرنے والے اپنے عہد کے جبکہ کوئی باہم معاہدہ کرلیں.اوربالخصوص صبر کرنے والے فقروفاقہ میں‘تکالیف و مصائب پراور جنگ کے وقت.یہی ہیں وہ لوگ کہ جو واقعتا راست باز ہیں‘اور یہی ہیں وہ لوگ جو حقیقتاًمتقی ہیں.‘‘

اس ایک آیت کے اندرپوری انسانی شخصیت کا ہیولیٰ اور مکمل کردار موجودہے.انسان کے اندر اگران مختلف پہلوئوں سے یہ کیفیات موجود ہیں تو پھر وہ واقعی سچا اورنیکوکار ہے اور ایسے ہی لوگوں کو متقی کہا جاتا ہے.ہمارے ذہنوں میںتقویٰ کے بھی کچھ اور ہی معیارات ہیں. کچھ لوگ ظواہر اور کچھ وضع قطع کے حوالے سے لوگوں کا تقویٰ ناپتے ہیں‘ لیکن تقویٰ درحقیقت اس متوازن شخصیت کا نام ہے جس کا ذکر آیت البر میں کیا گیا ہے.