نیکی اور گناہ کے بارے میں اپنے دل سے فتویٰ حاصل کرو!

متذکرہ بالا روایت امام مسلم کی نقل کردہ ہے‘جبکہ مسند احمد اور سنن دارمی میں یہ روایت حضرت وابصہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے ذرا مختلف الفاظ میں مروی ہے. وہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ کے پاس آیا تو آپؐ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا: جِئْتَ تَسْاَلُ عَنِ الْبِرِّ؟ ’’تم نیکی کے متعلق پوچھنے آئے ہو (کہ نیکی کیا ہے)؟‘‘ دیکھئے‘ حضور جان گئے کہ وابصہ کیا پوچھنے آیا ہے.اس سے ظاہرہوتا ہے کہ بعض اوقات بعض معاملات پر آپ غیبی طور پر مطلع ہوجاتے تھے. ویسے تو کچھ اندازہ صاحب نظر اہل ایمان کو بھی ہو جاتا ہے‘ اسی لیے رسول اللہ نے فرمایا: اِتَّقُوْا فَرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّـہٗ یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ (۱’’مؤمن کی فراست سے ہوشیار رہا کرو ‘اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘. تمہارے دل میں کیا ہے‘ اسے کچھ نہ کچھ نظر آجاتا ہے. حضور نے فرمایا: ’’اے وابصہ!تم مجھ سے نیکی کے بارے میں پوچھنے کے لیے آئے ہو ؟‘‘ قُلْتُ نَعَمْ! ’’میں نے عرض کیا:جی ہاں!‘‘ میں یہی دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوا تھا. جواب میں آپ نے فرمایا: اِسْتَفْتِ قَلْبَکَ ’’تم اپنے دل سے پوچھ لیا کرو!‘‘ انسانی وجود کی تین سطحیں (levels) ہیں‘سب سے نیچی نفس ‘سب سے اوپرروح اور درمیان میں قلب . اگر اس قلب کا میلان نفس کی طرف ہو گیا تو پورے وجود کے اندر نفسانیت‘ ظلمانیت اورتاریکی سرایت کر جائے گی اور اگر اس کا رخ روح کی طرف ہو گیا تو پورے وجود کے اندر نورانیت پھیل جائے گی . یوں سمجھئے کہ قلب ایک آئینہ ہے جو اپنے میلان کو منعکس (reflect) کرتا ہے. 

اللہ تعالیٰ نے اوّلاً نور پیدا کیا اور پھرنور سے سب سے پہلے روحِ محمدیؐ کو پیدا کیا. نور ہی سے فرشتے اور ارواحِ انسانیہ پیدا کی گئیں. تمام انسان جو اب تک دنیا میں آ چکے ہیں یا جو بھی قیامت تکآنے والے ہیں‘سب کی ارواح بیک وقت پیدا کر دی گئی تھیں اور پھر ان سب سے اللہ تعالیٰ نے عہد ِالست لیا تھا : اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚ (۱) سنن الترمذی‘ ابواب تفسیر القرآن‘ باب ومن سورۃ الحجر. (الاعراف:۱۷۲’’کیا میں ہی نہیں ہوں تمہارا رب؟سب نے کہا تھا:کیوں نہیں (آپ ہی ہمارے رب ہیں)‘‘. یہ عہد الست ہے جو ہم لے کر دنیا میں آئے ہیں.مجھے ایک مرتبہ اے کے بروہی صاحب نے کسی فلسفی کا ایک بہت گہرا جملہ سنایا تھا : 

Had you not possesed me in the begining, you would never have searched for me. 

لوگ خدا کی تلاش میں غاروں ‘پہاڑوں ‘جنگلوںاور صحراؤں میں جاتے ہیں‘ رہبانیت اختیار کرتے ہیں‘ اور بھی بہت کچھ کرتے ہیں. یہ سب کیوں ہے؟ اس کی وجہ اس جملہ میں یہ بتائی گئی ہے کہ اگر ابتدا میں ہی تمہاراخدا کے ساتھ تعارف نہ ہواہوتا توتم کبھی خدا کو تلاش نہ کرتے. وہ تو اصل میں خدا کی واقفیت اور روح کی اطاعت کا تعلق تو اس وقت سے ہے .اب وہ روح اللہ کا قرب چاہتی ہے اور اس مادی دنیا کا پردہ روح پر بہت شاق گزرتا ہے.بقول مولانا روم ؎ 

بشنو از نے چوں حکایت می کند
از جدائی ہا شکایت می کند!

جس طرح بانسری بانس سے جدا ہونے پر گریہ کناں ہے اسی طرح یہ روح فراق کی شکایت کر رہی ہے . اسی لیے موت کو ہمارے ہاں وصال کہا جاتا ہے. 

آگے آپ نے نیکی کی پہچان کے حوالے سے وہی بات فرمائی جو ماقبل ہم نے پڑھی: الْبِرُّ مَا اطْمَاَنَّتْ اِلَیْہِ النَّفْسُ وَاطْمَاَنَّ اِلَـیْہِ الْقَلْبُ ’’نیکی وہی ہے جس سے تمہارے جی کو اطمینان حاصل ہواور اس کی طرف سے تمہارا دل مطمئن ہو جائے.‘‘ نیکی کی کیفیت میں روح‘ قلب اور نفس ایک وحدت بن جاتے ہیں اور اس وحدت کا نام قرآن مجید کی اصطلاح میں ’’نفس مطمئنہ‘‘ ہے.فرمایا: یٰۤاَیَّتُہَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّۃُ ﴿٭ۖ۲۷﴾ارۡجِعِیۡۤ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرۡضِیَّۃً ﴿ۚ۲۸﴾فَادۡخُلِیۡ فِیۡ عِبٰدِیۡ ﴿ۙ۲۹﴾وَ ادۡخُلِیۡ جَنَّتِیۡ ﴿٪۳۰﴾ (الفجر) ’’اے اطمینان پانے والی روح! اپنے پروردگار کی طرف لوٹ چل‘ تو اُس سے راضی وہ تجھ سے راضی.پس تو میرے (ممتاز) بندوں میں شامل ہو جا اور میری بہشت میں داخل ہو جا!‘‘جب قلب کا رُخ نفس کی طرف ہو جائے اور پورا وجود قلب کے تابع ہوتے ہوئے نفس کی اطاعت پر آمادہ ہو جائے تو اس کیفیت کو ’’نفس امارہ‘‘سے تعبیر کیا گیاہے : اِنَّ النَّفۡسَ لَاَمَّارَۃٌۢ بِالسُّوۡٓءِ (یوسف:۵۳’’یہ نفس تو برائی کاہی حکم دیتا ہے‘ ‘. ایک کیفیت ڈانوا ڈول کی سی ہوتی ہے کہ قلب کبھی اِدھر‘ کبھی اُدھر. اس کیفیت کو ’’نفس لوامہ‘‘سے تعبیر کیا گیاہے : وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲﴾ (القیامۃ) ’’اور میں قسم کھاتا ہوں ملامت کرنے والے نفس کی‘‘.اکثر انسانوں کا معاملہ یہی ہوتا ہے. برے سے برے انسان میں بھی کبھی کوئی نیکی کا جذبہ ابھر آتا ہے اور اچھے سے اچھے انسان سے بھی بدی سرزد ہوجاتی ہے.

آگے گناہ کی پہچان کے حوالے سے وہی بات آرہی ہے جس کا ذکر پہلی روایت میں تھا: وَالْاِثْمُ مَا حَاکَ فِی النَّـفْسِ وَتَرَدَّدَ فِی الصَّدْرِ) ’’اور گناہ وہ ہے جس سے تمہارے جی میں ایک تشویش اور سینے کے اندر ایک تردّد پیداہو جائے‘‘. یعنی یہ تردّد اور خلجان پیدا ہوجائے کہ یہ میں نے کیاکیا‘ کیوں کیا! یہ انسان کی باطنی کیفیت ہے اور یہ علامت ہے اس بات کی کہ تم نے غلط کام کیا.