آخر میں آپ نے فرمایا: وَاِنْ اَفْتَاکَ النَّاسُ وَاَفْـتَوْکَ ’’چاہے لوگ تمہیں اس کے جواز کا بار بار فتویٰ کیوں نہ دیں‘‘. اگرچہ مفتی حضرات کہہ دیں کہ اس کا جواز ہے‘ لیکن اگر تمہارا دل کہہ رہا ہے کہ غلط ہے تو غلط ہے. اس لیے کہ فتویٰ تو’’ کتاب الحیل‘‘ کی رو سے بھی دے دیا جاتا ہے کہ کس طریقے‘ کس حیلے بہانے سے کوئی راستہ نکالا جائے . لیکن تمہارے اندر کا جو مفتی ہے‘ یہ جو روحِ ربانی تمہارے اندر ہے ‘اس کا تعلق براہِ راست خدا کی ذات کے ساتھ ہے .اس لیے اگر تمہارا دل مطمئن نہیں ہے تو وہ کام مت کرو!

اس کی مثال میں نے عرض کی تھی کہنورالدین زنگی کا بیٹا شدید بیمار ہو گیا.ہر طرح کے علاج معالجے آزمائے گئے مگر بے سود. آخر اطباء نے کہا کہ اس کی جان بچانے کا ایک ہی راستہ ہے کہ یہ شراب پی لے. سلطان نے کہا : معاذ اللہ!میں اپنے بیٹے کو حرام چیز استعمال کراؤں! اطباء نے بتایا کہ اس پر علماء کا فتویٰ ہے کہ جان بچانے کے لیے حرام چیز استعمال کی جا سکتی ہے.سلطان کو تسلی نہ ہوئی اور اس اللہ کے بندے نے فرداً فرداً چاروں مکاتب فکر کے علماء سے فتویٰ لیا تو سب نے یہی کہا کہ جان بچانے کے لیے جان بچانے کی مقدار تک حرام شے استعمال کر لینا جائز ہے. لیکن نور الدین زنگی کے دل کو تسلی نہ ہوئی‘ دل میں خلش اور کھٹک باقی رہی. اُس نے مفتیانِ کرام کو اپنے دربار میں بلایااور کہا: اللہ کی مشیت کے مطابق اگر میرے بیٹے کی موت کا وقت آ ہی گیا ہے تو کیا یہ شراب اسے بچا لے گی؟ انہوں نے کہا :نہیں! اُس نے پوچھا: اگر اللہ اسے صحت دینا چاہے تو کیا وہ شراب کا محتاج ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں!اس پر سلطان نے کہا :تو اپنے یہ فتوے اپنے پاس رکھو! 

اس ضمن میں یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ لوگوں کے ایمان اور تقویٰ کے اعتبار سے فرق و تفاوت تو رہے گا. جتنا آپ کا اندر خالص ہے اتنے ہی خالص فتوے آپ کو وہاں سے ملیں گےاللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث کے مندرجات پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے .آمین یا رب العالمین! 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات