اس حدیث میں چند اہم امور کا حکم دیا گیا ہے‘ جن میں سے ایک سمع و طاعت ہے. اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضور اکرم کے زمانے میں ایک نظامِ اطاعت تھاجو پہلے مسلمانوں میں بحیثیت جماعت اور پھر اسلامی حکومت میں رائج ہوا. اس نظامِ اطاعت کی تشریح کے لیے میں نے ابتدا میں سورۃ النساء کی آیت ۵۹کی تلاوت کی ہے.یہ آیت اس اعتبار سے قرآن مجید کی اہم ترین آیات میں سے ہے کہ اس میں اسلامی ریاست کے دستور کا ایک اہم اور بنیادی اصول بیان ہوا ہے.فرمایا: 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ﴿٪۵۹﴾ 

’’اے اہل ایمان! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے میں سے اولوالامر کی بھی (اطاعت کرو).پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلافِ رائے ہو جائے تو اسے لوٹا دو اللہ اور رسول کی طرف اگر تم واقعتا اللہ پر اور یومِ آخر پر ایمان رکھتے‘ہو .یہی طریقہ بہتر بھی ہے اور نتائج کے اعتبار سے بھی بہت مفیدہے.‘‘

دیکھئے‘یہاں بہت عجیب اسلوب ہے کہ تین ہستیوں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے: اللہ کی‘ رسول کی اور اولوالامر کی‘لیکن پہلے دوکے لیے ’’اَطِیْعُوْا‘‘ کا لفظ آیا ہے‘ جبکہ تیسرے کے لیے نہیں آیا ایک اسلوب تویہ ہو سکتا تھا کہ ’’اَطِیْعُوْا‘‘ ایک مرتبہ آ جاتا اور اس کا اطلاق تینوں پر ہو جاتا ‘جیسے الجبرا میں بریکٹ کے باہر جو شے ہو وہ بریکٹ کے اندر موجود ہرشے سے ضرور ضرب کھائے گی.دوسرا اسلوب یہ ہو سکتا تھا کہ ’’اَطِیْعُوا‘‘ تیسری مرتبہ بھی آ تا‘لیکن قرآن نے یہ اسلوب اختیار کیا ہے کہ ’’اَطِیْعُوا‘‘ پہلے دو کے ساتھ ہے‘ تیسرے کے ساتھ نہیں ہے.اصل میں اس اسلوب سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اللہ اور رسولؐ کی اطاعت مطلق‘ دائم‘ غیر مشروط اور غیر محدود ہے‘ یعنی اللہ اوررسول( ) کا ہرحکم بلاکم و کاست اور بلا چون وچراماننا ہرمسلمان پر لازم ہے‘لیکن صاحب ِامر کی اطاعت مطلق نہیں ہے ‘بلکہ اس کی اطاعت اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہو گی.