مذکورہ آیت کے اسلوب سے یہ واضح ہے کہ اللہ اور رسول ؐ کی اطاعت مطلق‘دائمی اورمستقل ہے‘جبکہ ہمارے ہاں بہت عرصے سے ایک فتنہ اٹھا ہے اور یہ لوگ رسول اللہﷺ کی اطاعت کو دائمی اور مستقل ماننے کو تیار نہیں ہیں.اس فتنے کوشروع کرنے والے سرسید احمد خان تھے جو قومی اعتبار سے تو ہمارے ہیروز میںشمار ہوتے ہیں‘ لیکن دینی اعتبار سے انہوں نے بہت سی گمراہیوں کا آغاز کیا ہے‘ جن میں سے ایک ’’استخفافِ حدیث‘‘ بھی ہے ‘یعنی حدیث کو خفیف سمجھنا اور حدیث کی قدر و منزلت کو کم سمجھنا.اس کے بعد سے یہ فتنہ بڑھتاچلا گیا اور ہمارے ہاں باقاعدہ ’’اہل ِقرآن‘‘ کا ایک فرقہ پیدا ہو گیا‘ جنہوں نے کہا کہ ہم تو صرف قرآن کو مانیں گے ‘ قرآن کے علاوہ کوئی اور چیز واجب التعمیل نہیں ہے.
یہ لوگ درحقیقت ’’منکرین حدیث‘‘ ہیں اور ان میں ایک بہت بڑا شخص غلام احمد پرویز تھا جو پاکستان میں فوت ہوا ہے .غلام احمد پرویز اچھا انشاء پرداز تھا اور گفتگو بھی اچھی کر لیتا تھا. ظاہر بات ہے کہ فتنہ وہی شخص اٹھا سکتا ہے جس میں کوئی صلاحیت ہو. بغیر صلاحیت کے نہ کوئی نیکی کا کام ہو سکتا ہے اور نہ بدی کا. بدی کا کام کرنے کے لیے بھی صلاحیت چاہیے‘ قوت چاہیے‘ لہٰذااس میں صلاحیتیں تھیں تو اس نے انکارِ حدیث کا فتنہ پھیلا یا. البتہ لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے وہ اپنے رسالے ’’طلوعِ اسلام‘‘ کے سرورق پر ہمیشہ ایک حدیث شائع کرتا . وہ احادیث جو اخلاقی نوعیت کی ہوںیا جن میں کچھ فضائل اعمال کا ذکرہو یا جن میں برے اخلاق کی نفی کی گئی ہو. ظاہر بات ہے ان حدیثوں پر کوئی فقہی احکام مرتب نہیں ہوتے. یہ تو اخلاقی تعلیمات ہیں یا ایمانیات کا معاملہ ہے‘ لیکن وہ احادیث جن سے احکام کا استنباط ہوتا ہے‘ ان کے بارے میں اس کے موقف کو اچھی طرح سمجھ لیجیے. اس لیے کہ اس شخص کے اثرات ہمارے معاشرے میں کافی پھیلے ہوئے ہیں اور آج اسی کی باقیات ہمارے ہاں خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا پر بہت نمایاں ہیں.
ان کا اصول یہ ہے کہ ’’اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ‘‘ یعنی رسول اللہﷺ کی اطاعت کا معاملہ صرف دورِ نبویؐ کے لیے تھا ‘کیونکہ اُس وقت آپؐ مسلمانوں کے امیربھی تھے‘ توبحیثیت امیر المسلمین اور امیر المو ٔمنین آپؐ کا حکم ماننا لازمی تھا‘ لیکن آپؐ کی اطاعت ہمیشہ کے لیے لازم نہیں ہے . یہ بات بہت بڑی گمراہی ہے.اسی لیے میں نے عرض کیاکہ اطاعت خداوندی (اطاعت قرآن) اور اطاعت رسول(صحیح حدیث کی اطاعت) دونوں مستقل ‘دائمی اور غیر مشروط ہیں. ان میں کوئی بات خواہ سمجھ میںآئے یا نہ آئے‘ ان پر عمل کرنا ہرحال میں لازم ہے .