ائمہ فقہ کی اطاعت کا معاملہ بھی امیر کی اطاعت کی طرح مقید اور مشروط ہے‘ بایں طور کہ ان کی اطاعت بھی اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے ضمن میں ہوگی. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ علیہ کا تو قول موجود ہے کہ اگر میری کسی رائے کے خلاف تمہیںکوئی صحیح حدیثمل جائے تو میری رائے کو دیوار پر دے مارو. اس کی وجہ یہ ہے کہ امام ابوحنیفہؒ کے زمانے تک ابھی احادیث پوری طرح جمع نہیں ہوئی تھیں اورجمع ِحدیث کا عمل جاری تھا‘ لہٰذا ساری احادیث ان کے علم میں نہیں تھیں. یہ تو ان کی بہت بڑی قابلیت ہے کہ ان کی کوئی بات بھی ایسی نہیں ہے جو بعد میں حدیث کی رو سے غلط ثابت ہوئی ہو. ہاں کوئی اختلاف تو ہو سکتا ہے ‘ لیکن غلط ثابت ہونا اور بات ہے. اس اعتبار سے یہ ان کی بہت بڑی فضیلت ہے.
اس طرح ان کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ جب سورۃ الجمعہ کی یہ آیت نازل ہوئی:
ہُوَ الَّذِیۡ بَعَثَ فِی الۡاُمِّیّٖنَ رَسُوۡلًا مِّنۡہُمۡ یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ٭ وَ اِنۡ کَانُوۡا مِنۡ قَبۡلُ لَفِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ۙ﴿۲﴾وَّ اٰخَرِیۡنَ مِنۡہُمۡ لَمَّا یَلۡحَقُوۡا بِہِمۡ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۳﴾
’’وہی تو ہے جس نے بھیجا اُمیین میں سے ایک رسولؐ انہی میں سے ‘جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اس کی آیات ‘ اور ان کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں تعلیم دیتا ہے کتاب و حکمت کی‘ اور یقینا اس سے پہلے تو وہ کھلی گمراہی میں تھے. اور ان میں سے دوسرے لوگوں کو بھی جو ابھی ان میں شامل نہیں ہوئے .اور وہ بہت زبردست ہے‘ کمال حکمت والا ہے.‘‘
اس موقع پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضورﷺ سے پوچھا کہ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ سے کون مراد ہیں؟ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ بھی اس وقت وہاںموجود تھے تو حضورﷺ نے ان کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کے فرمایا کہ یہ اور اس کی قوم عربوں کے بعد سب سے پہلے جو لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے وہ ایرانی ہی تھے. اس لیے کہ دورِ خلافت راشدہ میں سب سے پہلے عراق فتح ہوا جس پر ایرانیوں کی حکومت تھی. اس کے بعد شام فتح ہوا جس پر رومیوں کی حکومت تھی اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: لَـــوْ کَانَ الْاِیمَانُ عِنْدَ الثُّرَیَّا لَنَا لَہُ رَجُلٌ مِنْ ہٰؤُلَائِ (۱) ’’اگر ایمان ثریا کے پاس ہوتا تو بھی ان میں سے ایک شخص اسے پالیتا.‘‘ علامہ جلال الدین سیوطی اوربہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے امام ابوحنیفہؒ مرادہیں اور یہ بشارت انہی کے لیے ہے ‘کیونکہ وہ نسل کے اعتبار سے ایرانی تھے. لیکن حدیث کا مدعا یہ نہیں ہے کہ اٰخَرِیْنَ مِنْہُمْ صرف ایرانیوں میں سے ایک یا چند آدمی ہیں‘بلکہ اس میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو قیامت تک اسلام میں داخل ہوتے رہیں گے.