وعظ کے معنی نصیحت کے ہیںاور اس میں اصل مخاطب انسان کا وہ جذبہ ہے جس کا تعلق روح کے ساتھ ہے.بعض لوگوں کی روح مر چکی ہوتی ہے تو ان پر وعظ کاکوئی اثر نہیں ہوتا.ان کی مثال ایسے ہے جیسے چکنے گھڑے پر پانی پڑا اور وہ فوراً پھسل گیا‘لیکن نہیں ہوتا.ان کی مثال ایسے ہے جیسے چکنے گھڑے پر پانی پڑا اور وہ فوراً پھسل گیا‘لیکن جن کی ارواح کچھ زندہ ہوتی ہیںچاہے کمزور ہیں‘ مضمحل ہیں لیکن ہیں ابھی زندہ‘ مری نہیں ہیں تو ان پر وعظ کا اثر ہوتا ہے. سورئہ یونس میں قرآن مجید کو بھی ’’مَوعِظَۃ‘‘ کہا گیا ہے .فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾
’’اے لوگو! آ گئی ہے تمہارے پاس نصیحت تمہارے رب کی طرف سے اور تمہارے سینوں (کے اَمراض ) کی شفا اور اہل ایمان کے لیے ہدایت اور (بہت بڑی) رحمت.‘‘
قرآن کا پہلا کام وعظ ہے ‘یعنی قرآن دلوں پر اثر کرتا ہے‘ دلوں کو نرم کرتا ہے اور جب دل نرم ہوجاتے ہیں تو پھر ان میں بات داخل ہوتی ہے. جیسے سخت زمین پر بارش برسے گی تو پانی اس میں جذب نہیں ہو گا اور اگر آپ نے زمین کو ہل چلا کر نرم کیا ہواہے تو وہ پانی جذب ہوجائے گا.قرآن کا دوسراکام ہے : شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ کہ سینوں کے اندر جو روگ اور امراض موجود ہیں یہ ان کی دوا ہے‘ مگر ضروری ہے کہ یہ دوا سینے اور دل میں داخل ہو. فرض کیجیے ایک شخص کو مسلسل قے آ رہی ہے‘ اس حالت میں آپ اسے دوا پلائیں گے تو فوراً قے کے ذریعے باہرآجائے گی اور جب تک وہ دوا معدہ کے اندر جذب نہ ہو تو وہ کیا اثر دکھائے گی؟ (چنانچہ ایسے مریض کو آپ انجکشن کے ذریعے دوا اندر داخل کر دیتے ہیں اوروہ دوا فوراًخون میں شامل ہوجاتی ہے.) اسی طرح انسان کا دل جب تک نرم نہ ہواُس وقت تک قرآن دل پر اثر نہیں کرے گا اور پھر قرآن شفا ء ثابت نہیں ہو گا.
قرآن کی تیسری صفت ہے ’’ہُدًی ‘‘ یعنی یہ قرآن ہدایت ہے. لیکن دلوں میں تکبر ‘ حب ِدنیا‘ ُحب ِجاہ اور حبِ ّمال ہے تو یہ ہدایت اثر نہیں کرے گی. پہلے اس قرآن سے دل کی زمین نرم ہوگی‘ پھر وہ اندر داخل ہو کر ایسا اثر دکھائے گا کہ دل میں سے تمام منفی باتوں کی جڑیں اکھاڑ باہرپھینکے گا اور پھر آپ قرآن کی ہدایت سے فائدہ اٹھاسکیں گے. سورۃ البقرۃ میں فرمایا گیا: ہُدًی لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ کہ یہ قرآن تقویٰ والوں کے لیے ہدایت ہے.اگرچہ یہ اپنی جگہ ھُدًی لِّلنَّاس ہے‘ لیکن فائدہ اٹھانے کے اعتبار سے تقویٰ شرط ہے اور تقویٰ کے بغیر آپ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکتےقرآن کے بارے میںچوتھی بات یہ فرمائی : رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾ کہ یہ قرآن اہل ایمان کے لیے رحمت ہے. یعنی دنیا میں یہ ہدایت ہے اور اس ہدایت کو اختیار کرنے والوں کے لیے آخرت میں رحمت ہے.