لفظ ’’وعظ‘‘ کی تشریح کے بعد دوبارہ حدیث کے مطالعہ کی طرف آتے ہیں. راوی کہتے ہیں کہ حضوراکرم نے ایسا وعظ فرمایا : وَجِلَتْ مِنْھَا الْقُلُوْبُ ’’جس سے ہمارے دل کانپ گئے‘ لرز گئے‘‘ حدیث کے متن سے بھی ثابت ہو گیا کہ وعظ کا اصل ہدف قلب ہے اور اس کا براہِ راست اثر دل میں موجود روح پر ہوتا ہے وَذَرَفَتْ مِنْھَا الْعُیُوْنُ ’’اور ہماری آنکھیں بہہ پڑیں ‘‘. یعنی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور ہم پر رقت طاری ہو گئی. 

فَقُلْنَا: یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! کَاَنَّھَا مَوْعِظَۃُ مُوَدِّعٍ 
’’توہم نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول ! یہ تو گویا الوداع کہنے والے یعنی چھوڑ کر جانے والے کا سا وعظ ہے ‘‘. یعنی اس خطاب سے تو ایسے لگ رہا ہے جیسے آپ اس دنیا سے رخصت ہو نے والے اور ہم سے پردہ کرکے دور ہوجانے والے ہیں. فَاَوْصِنَا’’( اگر واقعی ایسا ہے) تو پھر ہمیں ذرا مزید وصیت کیجیے‘‘ اب یہاں لفظ وصیت آ گیا. وصیت ‘ نصیحت اور وعظ ‘یہ ایک ہی قبیل کے الفاظ ہیں اور ان کے معنوں میں بھی مماثلت پائی جاتی ہےصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے جب دیکھا کہ اس وعظ سے تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے حضور ہمیں الوداع کہہ رہے ہیں تو انہوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول  !ہمیں ایسی باتوں کی نصیحت فرمادیجیے جو آئندہ ہمارے لیے روشنی کا مینار بنیں.