رسول اللہ  نے مخلوق کی اطاعت کے حوالے سے ایک بنیادی اصول بیان فرما دیا : لَا طَاعَۃَ لِمَخْلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَۃِ الْخَالِقِ (۱’’مخلوق میں سے کسی کی اطاعت نہیں ایسے کام میں جس میں اللہ کی نافرمانی لازم آئے‘‘. اگرشوہر اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف کوئی حکم دے رہا ہے تو مسلمان بیوی پر اس کی اطاعت لازم نہیں ہے ‘بصورتِ دیگر اطاعت لازم ہے.قرآن مجید میں بیویوں کے حولے سے فرمایا گیا : فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ (النسائ:۳۴کہ نیک بیویاں فرمانبردارہوتی ہیں‘ اپنے شوہروں کا حکم ماننے والی ہوتی ہیں. مثلاً ایک رائے شوہر کی ہے اور ایک بیوی کی‘ دونوں باتیں صحیح ہیں اور خلافِ شریعت کوئی بھی نہیں. اب یا تو بیوی اپنی اپیل یا دلیل سے شوہر کو راضی کر لے‘ ورنہ اسے شوہر کی بات ماننی پڑے گی .لیکن ایسی بات نہیں ہے کہ شوہر اگر شریعت کے خلاف حکم دے تو بھی اسے ماننا پڑے.

اسی طرح تمہارا امیر کوئی خلافِ شریعت حکم دے تو آپ کا جواب یہ ہونا چاہیے کہ نہ سنیں گے اورنہ مانیں گے!اور اگر کوئی امیر اس بات پر پوری طرح سے جم جائے اور مصر ہو تو پھر آپ اس جماعت کو چھوڑیں اور کوئی دوسری جماعت ڈھونڈیںیا آپ خود جماعت بنائیں ‘لیکن جماعت کے بغیر نہیں رہنا چاہیے. حضرت عمرhسے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: عَلَیْکُمْ بِالْجَمَاعَۃِ وَاِیَّاکُمْ وَالْفُرْقَۃَ، فَاِنَّ (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الجہاد‘ باب ما جاء لاطاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق. الشَّیْطٰنَ مَعَ الْوَاحِدِ وَھُوَ مِنَ الْاِثْنَیْنِ اَبْعَدُ (۱’’تم پر جماعت کی شکل میں رہنا فرض ہے‘ اور تم تنہا مت رہو‘ اس لیے کہ اکیلے شخص کا ساتھی شیطان بن جاتا ہے‘ لیکن اگر دو (مسلمان) ساتھ رہیں تو وہ دور ہو جاتا ہے‘‘.

یہ ہے اللہ کے تقویٰ کے ساتھ‘ سمع وطاعت کا نظام اور اس کا حکم سورۃ التغابن کے آخر میں بایں الفاظ آیا ہے: فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا ’’تو تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اپنی حد ِامکان تک‘ اور سنو اور اطاعت کرو !‘‘