رسول اللہ نے فرمایا کہ اگر تم پر کوئی حبشی غلام بھی حکمران بن جائے تو اس کی اطاعت بھی تم پر لازم ہے.اس میں دوباتیں ہیں:(۱)غلام ہونا‘اور (۲)حبشی ہونا. ظاہر بات ہے کہ غلام کا درجہ کسی طور پر بھی آزاد کے برابر نہیں ہوسکتا.پھر یہ کہ اگرچہ اسلام نے رنگ ونسل کے سارے امتیازات ختم کردیے تھے ’مگر پھر بھی عربوں کے ہاں کچھ نہ کچھ نسلی تعصب موجود تھا .حضور اکرم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت اور تزکیہ فرمایا اور وہ مساواتِ انسانی کے پوری طرح قائل تھے‘ لیکن اُس دور میں بھی اِکا دُکا واقعات ایسے رونما ہوجاتے جن سے نسلی تعصب کی بو آتی چنانچہ ایک عرب صحابی نے ایک حبشی صحابی سے جھگڑتے ہوئے غصے میں آ کر کہہ دیا: یَا ابْنَ السَّوْدَاء ’’اے سیاہ فام عورت کے بیٹے!‘‘حضور نے سنا تو فرمایا : اِنَّکَ امْرُؤٌ فِیْکَ جَاھِلِیَّۃٌ (۱’’تم ایسے شخص ہو جس میں ابھی جاہلیت کے اثرات موجود ہیں!‘‘

الغرض اسلام آنے کے بعد بھی بعض لوگ حبشیوں کو کمتر سمجھتے تھے اوریہ نسلی تعصب مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکا. آج امریکہ میں بھی رنگ ونسل کا یہ فرق ختم نہیں کیا جاسکا ‘ حالانکہ وہ تعلیم وتعلم‘تہذیب وتمدن ‘معاشرت اور قانون کے اعتبار سے انتہا پر سمجھے جاتے ہیں.وہاں رنگ کی بنیاد پر کسی کوdiscriminate کرنا بہت بڑا جرم ہے‘لیکن اس سب کے باوجود رنگ ونسل کی منافرت آج بھی ان میں موجود ہے اور گورے حبشیوں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں.اصل میں یہ کچھ ملی احساسات ہوتے ہیں جو انسانی فطرت میں اس طرح رچ بس جاتے ہیں کہ ان میں کمی تو آسکتی لیکن مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکتے. لہٰذاحضور اکرم نے امیر کی اطاعت کے حوالے سے انتہائی بات فرمائی کہ کوئی حبشی غلام بھی اپنی طاقت کے بل بوتے پر اگرحکمران بن بیٹھے اور وہ خلافِ شریعت کوئی حکم نہ دے تو اس کی اطاعت بھی تم پر لازم ہے . (۱) غایۃ المرام للالبانی‘ ح:۳۰۷. راوی:ابوذر الغفاریص-